600 ارب کے نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سکینڈل کیس کی سماعت،مقدمہ کا اصل ریکارڈ طلب، عام پولیس ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے قائم کردہ فاؤنڈیشن نے پلاٹ دیگر لوگوں اور افسران کو کیسے دے دیئے، جسٹس ناصر الملک، عدالت نے عام اصول وضع کردیا تھا کہ جن لوگوں کو بھی پلاٹ دیئے گئے وہ سب غیر قانونی عمل تھا اور تمام پلاٹس کینسل کردیئے تھے ،جسٹس اعجاز چوہدری

بدھ 28 مئی 2014 07:07

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28مئی۔2014ء) سپریم کورٹ نے چھ سو ارب کے نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سکینڈل کیس کی سماعت کل (جمعرات) تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم عدالتی فیصلے کا جائزہ نہیں لے رہے ہیں ، ہمارا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں لایا گیا اس کے مقاصد کیا تھے ، الاٹمنٹ کا معیار کیا تھا ، کیا مارکیٹ ویلیو کے مطابق پلاٹوں کی قیمت کا تعین کیا گیا ، عدالت نے مقدمے کا اصل ریکارڈ بھی طلب کیا ہے جبکہ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عام پولیس ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے قائم کردہ فاؤنڈیشن نے پلاٹ دیگر لوگوں اور افسران کو کیسے دے دیئے جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے این پی ایف کیس میں ایک عام اصول وضع کردیا تھا کہ جن لوگوں کو بھی پلاٹ دیئے گئے وہ سب غیر قانونی عمل تھا اور تمام پلاٹس کینسل کردیئے تھے ، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن نے اپنے اشتہارات میں پلاٹوں کی خریداری محدود رکھی اس میں پلاٹوں کی قیمت اور کتنے رقبہ کا پلاٹ ہوگا ، کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ، غریب لوگوں کے لیے بنائی گئی فاؤنڈیشن میں افسران نے اپنے اثرورسوخ سے پورے خاندان کو پلاٹ الاٹ کرائے پلاٹوں کی فروخت مارکیٹ ویلیو کے مطابق بھی نہیں تھی ، یہ پلاٹ بغیر نیلامی کے کیسے الاٹ کردیئے گئے ، پلاٹ کی خریداری کی قیمت انتہائی کم تھی مگر اس کو فروخت کرکے زیادہ رقم کمائی گئی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں ۔ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کی جانب سے علی ظفر پیش ہوئے اور دلائل کا آغاز کیا پانچ مقدمات میں حشمت حبیب ایڈووکیٹ پیش ہوئے ۔ علی ظفر نے کہا کہ جو ایشو اس وقت عدالت میں ہے نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے دو پراجیکٹس جو کہ ہاؤسنگ سکیم تھیں شروع کیں اس میں پلاٹوں کی خریدوفروخت ہونا تھی ۔ انہوں نے اراضی کے لیے مارکیٹ ویلیو کے مطابق پیسے دیئے تیسرے فریق سے نہیں خریدے گئے ۔

جسٹس ناصر نے کہا کہ کای آپ کو یہ الاٹ ہوئے تھے ۔ علی ظفر نے کہا کہ میرے علم کے مطابق انجم عقیل کو رقم ادا کی گئی ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ کیا کوئی بولی دی گئی تھی ۔ علی ظفر نے کہا کہ رقم دے کر اراضی خریدی گئی عدالت اس کو الاٹمنٹ کرسکتی ہے ۔ اراضی کی خریداری بارے تحقیقات کی گئیں ۔ انجم عقیل خان فروخت کنندہ تھے الزام یہ تھا کہ این پی ایف نے 52 کروڑ دے کر 608 کنال اراضی خریدی یہ ایشو 2002ء سے 2004ء سے متعلق ہے کچھ لوگوں نے ایک سے زائد پلاٹ بھی خریدے اور یہی عدالتی حکم میں 30جون 2013ء میں بھی لکھا گیا عدالت نے سیکرٹری این پی ایف کو جائزہ لینے کا کہا تھا اس دوران فہرست عدالت کو فراہم کی گئی جو فیصلے میں شامل ہے یہ خود سے تیار کردہ فہرست تھی جو فاؤنڈیشن کے سیکرٹری نے بنائی تھی اس حوالے سے فہرست کے حوالے سے تحقیقات نہیں کی گئیں اس دوران درخواست گزار آگئے چار تحقیقات کی گئیں ایک این پی ایف کی اپنی رپورٹ ہے جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے دوسری رپورٹ منیجنگ ڈائریکٹر ظفر قریشی نے 2011ء میں تیار کی تھی تیسری تحقیقات این پی ایف کی سب کمیٹی نے کی تھیں اور چوتھی رپورٹ ایف آئی اے کی تھی ۔

دو چیزیں نوٹ کی ہیں ان میں کسی کوبھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا کہ مارکیٹ ویلیو سے ہٹ کر اراضی خریدی گئی دوسری بات یہ ہے کہ دورپورٹس این پی ایس کیس میں ہم نے ایک درخواست گزار کو ایک پلاٹ لینے کا پابند تھا تاہم فیملی کے لوگ بھی پلاٹ خرید سکتے تھے ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ کیا اوپن خریداری تھی اور عام لوگ بھی خرید سکتے تھے ؟ اس حوالے سے ڈاکومنٹ بھی دیں ۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ نے کیا اراضی خریدی ۔ علی ظفر نے کہا کہ پانچ نومبر 1997ء میں پلاٹ خریدے گئے ۔ رفیق حیدر نے 11لاکھ سے زائد رقم ادا کیا ایک پلاٹ خریدا اس کی بیوی انجیلا رفیق نے دوسرا پلاٹ اسی قیمت پر خریدا ۔ عدالت نے کہا کہ آپ فہرست بنا کردے دیں ۔ علی ظفر نے کہا کہ 1989ء سے 1997ء تک یہ پلاٹ خریدے گئے رقم جب دی گئی تھی اس وقت اراضی کا وجود نہیں تھا ۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ اوپن پلاٹوں کی خریدوفروخت کی کیا بولی دی گئی تھی ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ بتایا جائے کہ کتنے پولیس افسران کوپلاٹ دیئے گئے ؟ علی ظفر نے کہا کہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے پلاٹ خریدے ۔ کچھ لوگ گھر بنا کر رہ رہے ہیں پلاٹوں کی قیمت کی ادائیگی 2001ء میں کی گئی ۔ جسٹس امیر ہانی نے پوچھا کہ وہ دستاویز دکھادیں جس میں پولیس کے پلاٹوں کو کھلے عام نیلامی میں فروخت کیا جاسکتا تھا ؟ علی ظفر نے کہا کہ سب تفصیلات عدالت کو بتاؤں گا ۔

یہ چیریٹی ایبل ایکٹ کے تحت فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اس کا مقصد ملازمت میں موجود اور ریٹائر ہونے والے پولیس افسران کی فلاح وبہبود تھی ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اس کا سرکلر دکھائیں جب آپ نے فاؤنڈیشن کے نام پر پلاٹ خریدنا شروع کئے ۔ علی ظفر نے کہا کہ فارم ملتے تھے تمام پولیس کے لوگوں کولیٹرز جاری کئے گئے تھے دو جولائی 1999ء میں اشتہار بھی دیا گیا تھا جس کے بعد پلاٹ خریدے گئے ۔

سی ایم اے 2456 میں تمام تر ریکارڈ موجود ہے ۔ یہ رپورٹ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن نے فائل کی تھی جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ یہ ریکارڈ ہمارے پاس موجود نہیں ہے ۔ حامد خان نے کہا کہ ان کی درخواست میں یہ اشتہار موجود ہے ۔ جسٹس ناصر الملک نے اصل کیس کا ریکارڈ منگوالیا ہے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ اشتہار میں پلاٹوں کی خریداری محدود تھی نہ اس میں پلاٹ کی قیمت ہے نہ رقبہ کا بتایا گیا ہے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کہ آپ کا معاملہ اس اشتہار سے ویسے بھی کور نہیں ہوتا ۔ علی ظفر نے کہا کہ وہ پولیس فاؤنڈیشن سے متعلقہ نہیں ہیں انہیں جب پتہ چلا انہوں نے پلاٹ خریدا ۔ بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ میں سرکاری اور عام لوگوں کو پلاٹوں کی فروخت کی منظوری دی ۔ یہ تمام تر رپورٹس موجود ہیں عدالتی فیصلے میں بھی یہ بات موجود ہے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا ک آپ نے جو دلائل پہلے دیئے تھے وہ آج نہیں ہیں آپ نے تو کہا تھا کہ انفرادی طور پر پلاٹ دیئے گئے ہیں ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ نے نظر ثانی میں پہلے کے دلائل پر اکتفا کرنا ہوتا ہے آپ اس سے باہر نہیں جاسکتے ۔ علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے اس کیس 184(3) کے تحت اپنے اختیارات استعمال کئے اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ تمام پلاٹس 1989 سے 2014ء تک کی خریداری کو کالعدم قرار دیا تھا تمام پلاٹس جو کہ غیر قانونی طور پر بغیر آکشن کے خریدے گئے کیا خریدنے والے پولیس کے لوگ تھے یا بزنس مین تھے ۔

سب کے پلاٹوں کی خریداری کالعدم قرار دی گئی کہا گیا کہ جس نے پلاٹ خریدنے ہیں وہ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت ادا کرے عدالت نے محسوس کیا کہ پلاٹ ارزاں نرخوں پر خریدے گئے پولیس افسران نے فائدہ اٹھایا اس لئے یہ تمام پلاٹس کینسل ہونے چاہیں اہم نکتہ یہ ہے کہ 1989ء میں مارکیٹ ویلیو کیا تھی اور 1997ء میں کیا قیمت تھی اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔

جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ مستحق لوگوں کو پلاٹ نہیں دیئے گئے مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت ادا نہیں کی گئی ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ جو بھی غیر قانونی معاملہ تھا اس کو کالعدم قرار دیا گیا آپ کو ان پلاٹوں کی خریدوفروخت کا پتہ کب چلا اور کیسے آپ نے پلاٹ الاٹ کرائے جبکہ اس وقت زمین کا وجود ہی نہیں تھا ۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ خریدوفروخت غیر قانونی اور مشکوک تھی علی ظفر نے کہا کہ جو کچھ بھی تھا ہم نے فاؤنڈیشن کے قوانین و قواعد کے تحت یہ پلاٹ خریدے ۔

فاؤنڈیشن کو مقصد حاصل ہوا یا نہیں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں آرمی ، سول اور دیگر سرکاری لوگوں کو ایک فیصد پلاٹ الاٹ کئے گئے زیادہ پلاٹ پولیس کے لوگوں نے خریدے۔ انہوں نے بتایا کہ این پی ایف کا قیام لوگوں کی فلاح کا تھا مگر رقم خالی لگانے کی بات کی تھی کیونکہ اراضی تھی ہی نہیں عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فاؤنڈیشن نے پلاٹوں کی لوٹ سیل لگائی ۔

پولیس افسران نے پانچ سے آٹھ پلاٹس خریدے حالانکہ وہ صرف ایک پلاٹ خریدے جاسکتے تھے باقی پلاٹس غیر قانونی طور پر خریدے گئے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ پولیس افسر کی بیوی کو پلاٹ الاٹمنٹ غیر قانونی تھی کیونکہ وہ خریداری کی اہل نہ تھی یہ تو عام پولیس اہلکاروں کے لئے پلاٹ تھے جو افسران نے اونے پونے داموں خرید لئے اور عام پولیس اہلکار آج بھی پریشان پھرتے ہیں ۔

علی ظفر نے کہا کہ پلاٹو ں کی مارکیٹ ویلیو کے تحت خریداری کے حوالے سے کوئی تحقیقات کی ہی نہیں گئیں ۔ بعض لوگوں کو ایک ایک کینال اراضی کے پلاٹ بھی بغیر قواعد و ضوابط کے دیئے گئے ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ میں نے رقم کم ادا کی اس لئے میں اس کی خ ریداری کا اہل نہ تھا ۔ جسٹس اعجاز چوہدری اور جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ کیا ان پلاٹوں کی نیلامی ہوئی تھی یہ پلاٹ تو صرف پولیس کے لوگوں کے لیے تھے ۔

بغیر آکشن کے کیسے دیئے گئے ؟ زاہد بخاری نے بتایا کہ اس حوالے سے تمام تر اقدامات کئے گئے مقصد فاؤنڈیشن کے لیے فنڈزاکٹھے کرنا تھا یہ سب پلاٹ الاٹ کئے گئے کارنر اور دیگر پلاٹوں کی قیمت میں فرق تھا ان پلاٹوں کی فروخت میں کسی کو فروخت کے حوالے سے کوئی امر مناع نہ تھا ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ایک پولیس افسر کو پلاٹ الاٹ ہوا وہ قیمت تو کم تھی مگر جب نے اس فروخت کیا تو بھاری قیمت وصول کی علی ظفر نے کہا کہ سی ڈی اے کی پبلک سکیم تھی انہوں نے بھی اشتہار دیا تھا اس فاؤنڈیشن کے دو مقاصد تھے ایک تو پولیس کے لوگوں کو گھر دینا تھا یہ خیراتی ادارہ تھا جس سے عام پولیس اہلکاروں کو فائدہ پہنچانا تھا ایس آر او کے تحت دو چیزیں کہی گئیں یہ چیریٹی ایبل مشن تھا ۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ علی ظفر نے کہا کہ میں خیراتی اور بزنس کے معاملات میں فرق واضح کرنا چاہتا تھا خیراتی ادارے کا مقصد فنڈز اکٹھا کرنا تھا فاؤنڈیشن کو پلاٹ خریدنے اور بعد ازاں فروخت کی اجازت دی گئی تھی ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہاکہ ہم نے دوسرے درخواست گزاروں کو بھی سننا ہے جبکہ بدھ کو لارجر بینچ لگا ہوا ہے جس کے تحت مقدمات کی سماعت ہونا ہے ۔

جسٹس ناصر الملک نے مزید کہا ک اس فاؤنڈیشن کا اصل مقصد عام پولس اہلکار کی فلاح تھی ۔ علی ظفر نے کہا کہ ایک حقیقت یہ بھی ہے 1989ء سے 2001ء تک کوئی اراضی اور فنڈز نہ تھے وہ لوگ جنہوں نے رقم ادا کی ان کی رقم سے انجم عقیل سے اراضی خریدی گئی اور قبضہ بھی لیا گیا کہا گیا تھا کہ صرف ایک پلاٹ ہی خریدا جاسکتا تھا ۔ عدالت نے کسی قانون کاسہارا نہیں لیا کہ ہر ایک پلاٹ خرید سکتا ہے کیونکہ فاؤنڈیشن کا مقصد تمام پلاٹوں کی فروخت کرنا تھی جب سوسائٹی لانچ ہوتی ہے تو پھر پلاٹ فروخت کے لیے رکھے جاتے ہیں وہ رقم کمانا چاہتے ہی ان کے پاس سرمایہ کار نہی تھے ۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کو اوپن کیوں کیا جب کہ یہ صرف مخصوص فاؤنڈیشن تھی پولیس افسران کو پلاٹ دے دیئے گئے باقی لوگوں کے لیے بیلٹنگ کی گئی علی ظفر نے کہا کہ 78فیصد پلاٹس فروخت کئے گئے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ ان کو پلاٹ فروخت کئے گئے جو فاؤنڈیشن میں شامل تھے باقی تو صرف معاملات دیکھ رہے تھے ۔ علی ظفر نے کہا کہ کوئی پولیس افسر عدالت نہیں آیا کہ وہ پلاٹ خریدنا چاہتا تھا مگر اس کو موقع نہیں دیا گیا لوگ زیادہ ہوتے تو تب معاملات مختلف ہوتے ۔

ایک شخص کو ایک پلاٹ ہی فروخت کیا جاسکتا تھا 1989ء میں کی گئی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں ۔ ای الیون اور لوئی بھیر میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے لیے اراضی خریدنے کا فیصلہ کیا بیس سے تیس ارب روپے کی انکم کاامکان تھا شرط یہ رکھی گئی صرف ایک کو پلاٹ دیا جائے گا مگر اس کی خلاف ورزی ہوئی کیونکہ پلاٹس زیادہ تعداد میں دستیاب تھے پولیس کے لوگوں نے رابطہ نہیں کیا جس پر پلاٹس کی عام لوگوں کے لئے بیلٹنگ کی گئی میں نے مارکیٹ ویلیو کے مطابق پلاٹ خریدے پہلے ممبر شپ دی گئی ۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ سوسائٹی کے کیا رولز تھے؟ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ فاؤنڈیشن کا ممبر بننا ضروری تھا علی ظفر نے کہا کہ فارمز دستیاب تھے ان کا پراجیکٹ ہاؤسنگ سکیم تھا ۔ افنان کریم کنڈی نے کہا کہ پولیس فاؤنڈیشن کی سکیموں کو مختلف ہاؤسنگ سکیموں کا نام دیا گیا لوئی بھیر میں ایک جبکہ اسلام آباد میں تین سکیمیں تھیں ۔ علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے تمام تر رولز عدالتی فیصلہ کا حصہ بنا دیئے تھے ۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اشتہار سے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا مگر اس سے پتہ چلا تو آپ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا یہ ممبر شپ فاؤنڈیشن کی تھی یا ہاؤسنگ سکیم کی تھی ؟ علی ظفر نے کہا کہ ایک ممبر شپ تھی اور دوسرا الاٹمنٹ کے لیے قواعد وضوابط اور شرائط رکھی گئیں بینک ڈرافٹ اور دیگر ذرائع سے رقم جمع کروانا تھی ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اگر ایک شخص کو پلاٹ ملنا تھا تو پھر دیکھنام ہوگا کہ فاؤنڈیشن اور سوسائٹی کی ممبر شپ میں کیا فرق تھا ؟ علی ظفر نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کہاگیا تھا کہ فاؤنڈیشن کے پلاٹس پولیس افسران کے خاندان کے افراد کو نہیں دیئے جاسکتے تھے حالانکہ ہر شخص پلاٹ خریدنے کا حقدار تھا مخصوص کرنے کا کوئی قانون نہیں بتایا گیا کہ جس کے تحت یہ سب غلط تھا ۔

عدالت بھی اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ پولیس افسران کے ساتھ فاؤنڈیشن کی مینجمنٹ دینے کو کہا تھا فیئر ٹرائل ہونا چاہیے افسران کے اثر انداز کو کافی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ 184(3) کے تحت کیا اس کی سماعت ہوسکتی تھی ۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ اس پر دلائل دے چکے ہیں نئے دلائل نہیں دے سکتے ۔ علی ظفر نے کہا کہ 184(3) کو اگر 10 اے اور دیگر عدالتی فیصلے دیکھے جائیں کہ سول معاہدے کے دوران فیصلہ فیئر ٹرائل سے کیا جائے گا چھان بین کی جاتی اور پھر فیصلہ کیا جاتا ایشو ضرور فریم کیا گیا فیصلہ نے ایشو فرم کیا پہلے سے یہ فریم نہیں تھا ۔

اب اس کو ماتحت عدالت کیا کرسکتی تھی ۔ انٹرنیشنل کانفرنس میں ایک مضمون پڑھا گیا قرارداد میں کہا گیا کہ عدالت 184(3) کے اختیارات کے استعمال عدالت خود کو سول معاملات میں ملوث نہیں کرسکتی یہ سب چیف جسٹس پاکستان نے کیا تھا بعض نکات فیصلے میں امتیازی تھے عدالت نے کہا کہ کسی کو پلاٹ فروخت نہیں ہوسکتے صرف پولیس افسران کو ہی دیئے جاسکتے تھے ۔

پھر کہا گیا کہ عام لوگوں کو بھی فروخت ہوسکتے ہیں مگر اس کے لئے مارکیٹ ویلیو کا جائزہ لینا ضروری ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا فاؤنڈیشن کو پلاٹوں کی فروخت کا اختیار تھا یا نہیں اگر آج کی مارکیٹ ویلیو دیکھنا ہے تو وہ نہیں تھی ۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ صرف ایک پولیس افسر کو پلاٹ دیا جاسکتا تھا اس صورت میں تو میرا ایک پلاٹ جو بیوی کو دیا گیا تھا کہ وہ کینسل ہوسکتا تھا دونوں تو نہیں ہوسکتے تھے میں نے پچیس سال قبل رقم ادا کی تھی اب یہ مجھ پر کس طرح سے فرض ہے کہ میں حالیہ مارکیٹ ویلیو کے تحت رقم ادا کروں میری رقم سے ہی تو ماضی میں فاؤنڈیشن نے اراضی خریدی گھروں کی تعمیر کا بھی مسئلہ ہے اب تو گھر بن چکے ہیں چار گھر میں نے بنالئے ہیں جسٹس ناصر نے کہا کہ کتنے پلاٹ فروخت ہوئے تھے کتنے گھر بنے ان کی تفصیل دیں ۔

علی ظفر نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تفصیل دے دونگا پانچ درخواست گزاروں کی جانب سے حشمت حبیب ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کرنے کو کہا تھا جو دائر کردی گئی ہم پولیس افسر نہیں تھے ہم عدالتی فیصلے سے متاثر نہیں ہوئے ناصر علی ، ثریا نواز ، محمد نواز اور دیگر لوگ شامل تھے میرا موقف واضح ہے علی ظفر اور حامد خان کے دلائل کو اختیار کرتا ہوں اضافی دلائل یہ ہیں کہ ہمیں تو سنا ہی نہیں گیا پلاٹوں کے کینسل کرنے کے فاؤنڈیشن کے اپنے قواعد موجود تھے اس کے بغیر کوئی پلاٹ کینسل نہیں کیا جاسکتا جولائی 1993ء کو ان پلاٹ الاٹ کئے گئے رفعت مصطفی کو پلاٹ الاٹ کیا گیا اور یہ انعام کے طورپر دیا گیا تھا میں نے بیلٹنگ میں پلاٹ لیا تھا عدالت نے کہا کہ آپ فہرست بنا کر دیں کہ کون سا الاٹ شدہ تھا اور کون سا نہیں ۔

دیگر پولیس افسران کی جانب سے بھی نظر ثانی کی درخواستوں پر دلائل دیئے گئے ان میں امجد بشیر وغیرہ سمیت کئی پولیس افسران کی درخواستیں شامل تھیں 2005ء میں 9لاکھ 58ہزار روپے دے کر پلاٹ لوئی بھیر میں خریدے یہ تمام افراد سویلین ہیں اور براہ راست پلاٹ خریدے تھے میاں امتیاز بشیر نے بھی یہ پلاٹ پچیس فروری 2005ء میں پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم میں خریدا ہم نے اشتہار جو کہ 1989ء 1990ء 2000 میں دیا گیا تھا کہ تحت پلاٹ خریدا تھا ہمارے پاس اشتہارات کا ریکارڈ نہیں تھا فاؤنڈیشن کے پاس ہوگا ۔

دونوں افراد بیرون ملک میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا فاؤنڈیشن کی مینجمنٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ فاؤنڈیشن نے جو مارکیٹ ویلیو طے کی تھی وہ ادا کی گئی ۔ لوکیشن کے مطابق پلاٹ کی قیمت دی گئی صغیر احمد نے دس لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے میں پلاٹ خریدا ان کا تعلق پی آئی اے سے تھا 2005ء میں پلاٹ خریدا ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ 2005ء میں کون سا اشتہار آیا تھا وکیل نے بتایا کہ اب بھی اشتہار بازی کے ذریعے پلاٹس فروخت ہورہے ہیں ۔

2002 ء اور 2005مء میں دو پلاٹ خریدے تھے ۔ این پی ایف نے خود کہہ ر کھا تھا کہ عام لوگ بھی پلاٹ خرید سکتے تھے عدالت نے کہا کہ یہ دلائل ہوچکے ہیں نئی بات کریں ڈاکومنٹس فائل کریں وکیل نے کہا کہ کینسل ہونے والے پلاٹوں کی پھر بندر بانٹ ہوگی ۔ عدالت نے کہا کہ یہ بات چھوڑ دیں ۔ وکیل نے کہا کہ پولیس افسر نہیں تھے اس لئے ان کے پلاٹ کینسل نہیں ہوسکتے تھے ویسہ بھی یہ معاہدہ کے تحت خریدے گئے تھے ڈبل الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی درخواست دے رکھی ہے پولیس افسر کو دو پلاٹ دیئے گئے تھے او نائن اور ای الیون میں پلاٹوں کی جو مارکیٹ قیمت بنتی تھی وہ دے دی تھی ۔

متعلقہ عنوان :