طالبان سے مذاکرات یا آپریشن فیصلہ آ ئند ہ دو ہفتو ں میں متوقع ،حکمت عملی عسکری قیادت کی مشاورت سے طے ہوگی۔ وزیراعظم رواں ہفتے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اجلاس میں طالبان سے مستقبل میں مذاکرات کے حوالے سے حتمی پالیسی کاتعین کیاجائے گا،وفاقی سطح پرطالبان سے ہونے والے مذاکرات پرمشاورت کا سلسلہ جاری ہے، ذرائع، مذاکرات میں تعطل کی وجہ حکومت ہے،کالعدم تحریک طالبان ،حکومت مذاکرات بھی ہم سے کر رہی ہے اور جنگ بھی ہمارے ہی خلاف جاری رکھے ہوئے ہے، فوجی رروائیاں محض شمالی وزیرستان میں نہیں بلکہ باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک میں جاری ہیں، ترجمان شاہد اللہ شاہد

منگل 27 مئی 2014 08:02

اسلا م آ با د(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27مئی۔2014ء) وزیراعظم نوازشریف دورہ بھارت سے واپسی کے بعد آئندہ 15روز میں وفاق طالبان سے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے یاختم کرنے سمیت آپریشن کے آپشن پراہم حکمت عملی طے کرلے گا۔حکمت عملی عسکری قیادت کی مشاورت سے طے ہوگی۔ وزیراعظم رواں ہفتے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اجلاس میں طالبان سے مستقبل میں مذاکرات کے حوالے سے حتمی پالیسی کاتعین کیاجائے گاجبکہ وفاقی وزیرداخلہ، حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے ارکان میں بھی آئندہ چندروز میں ملاقات ہوسکتی ہے۔

ذرائع کاکہنا ہے کہ وفاقی سطح پرطالبان سے ہونے والے مذاکرات پرمشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے پس پردہ طالبان رابطہ کارکمیٹی کوآگاہ کردیا گیاہے کہ طالبان نے اب تک مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے کسی بھی وعدے کوپورا نہیں کیا ہے اورحکومت کی جانب سے غیرعسکری طالبان کورہا کرنے کے باوجودطالبان نے سویلین قیدیوں کی رہائی کے وعدے پرعمل نہیں کیا۔

(جاری ہے)

مذاکراتی عمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلیے ضروری ہے کہ طالبان قیادت طالبان رابطہ کارکمیٹی کو اس بات کی تحریری ضمانت دے کہ وہ سیزفائر میں توسیع کے علاوہ سویلین قیدیوں کی رہائی کے وعدے پر فوری عمل کریں گے۔

بامقصد مذاکراتی عمل اسی وقت شروع ہوسکتا ہے جب طالبان قیادت کی جانب سے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کے لیے پہل کی جائے۔ اگر طالبان قیادت سنجیدگی سے مذاکراتی عمل کو آے بڑھائے گی تو حکومت کا جواب بھی مثبت ردعمل کے طور پر سامنے آئے گا۔

اہم ذرائع کاکہنا ہے کہ وزیراعظم اعلیٰ سطح پرمشاورت کے بعدحکومت اور طالبان کمیٹیوں سے جلدملاقات کریں گے۔ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے حکومت کے اس موقف کو غلط قرار دیا ہے جس کے مطابق ان شدت پسند گروہوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں جو بات کرنا چاہتے ہیں اور ان سے جنگ جو محض لڑائی کے خواہاں ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے ساتھ نامعلوم مقام سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات بھی ہم سے کر رہی ہے اور جنگ بھی ہمارے ہی خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ کارروائیاں محض شمالی وزیرستان میں نہیں بلکہ باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک میں جاری ہیں۔ ہمارے علاوہ ان کے ساتھ اور کون بات چیت کر رہا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ صرف قوم کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں یہ انہی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے طالبان گروپوں میں اختلافات بارے انہوں نے کہا کہ تحریک میں تھوڑے بہت اختلافات تو پہلے سے موجود تھے لیکن یہ ہمارے حملوں پر اثر انداز نہیں ہو رہے ہیں۔

یہ اختلافات محض وزیرستان میں ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے کہ میڈیا نے انہیں ہوا دی ہے۔ شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں تعطل کی وجہ وہ نہیں بلکہ حکومت ہے۔ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم اور یوسف شاہ سے حکومت کوئی رابطہ نہیں کر رہی ہے۔ ہمیں کہا گیا کہ وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ سے بات کریں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں تو کوئی خبر نہیں مذاکرات میں ان کے کردار کی۔جنگ بندی کے خاتمے اور مذاکرت میں بظاہر تعطل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ جان بوجھ کر ’عوام کے مفاد میں پرتشدد کارروائیاں نہیں کر رہے ہیں۔