شمالی وزیرستان میں فضائی آپریشن حکومتی منظوری کے بعد ہوا، عسکری ذرائع کی طرف سے حکومت اور فوج میں اختلافات کی تردید،شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا ہے نہ ہی طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ ،چودھری نثار،شمالی وزیر ستان میں محدود فضائی حملے اور فوجی کاروائیاں معمول اور حالیہ دہشتگردی واقعات کا رد عمل ہے اس کا آپریشن سے کوئی تعلق نہیں، بیان

اتوار 25 مئی 2014 08:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25مئی۔2014ء)عسکری ذرائع نے غیرملکی میڈیا کی ان اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے کہ فوج اپنے طور پر دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں کارروائی کر رہی ہے اور اس حوالہ سے فوج اور حکومت میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق عسکری ذرائع نے ہفتہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں فضائی کارروائی باقاعدہ طور پر حکومت کی منظوری کے بعد شروع کی گئی اور فضائی آپریشن کے دوران 60 دہشتگرد ہلاک ہوئے، یہ دہشت گرد مبینہ طور پر بے گھر لوگوں کے کیمپوں سمیت شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر مختلف حملوں میں ملوث تھے ۔

عسکری ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ فوج نے حکومت کی اجازت کے بغیر اپنے طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔

(جاری ہے)

ادھروفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے طالبان کے خلاف کسی قسم کے آپریشن کا فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

شمالی وزیرستان میں محدود فضائی حملے اور فوجی کاروائیاں معمول کی کاروائی اور حالیہ دہشتگردی واقعات کا رد عمل ہے جس کا آپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے حالیہ سیکیورٹی اجلاس میں قطعی طورپرشمالی وزیریستان میں طالبان کے خلاف بھرپور فوجی آپریشن کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ہفتہ کے روز وزیر داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں غیر ملکی نیوز ایجنسی کی اس خبرکو مضحکہ خیز اور حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی گئی ہے کہ وزیر اعظم کی صدارت میں طالبان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرنے کے لئے سیکیورٹی اجلاس منعقد ہوا تھا،بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پہلی دفعہ نہیں اس سے پہلے بھی مذکورہ نیوز ایجنسی کی جانب سے سول ملٹری ریلیشنزکے حوالے سے بنیاد اور حقائق کے منافی خبریں جاری کی جاتی رہی ہیں۔

بیان میں انہوں نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد ہونے والے حالیہ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بارڈرز کی سیکیورٹی صورتحال پر خصوصی طورپر غور کیا گیا تھا اور اجلاس کے انعقاد کا مقصدبھی یہی تھا کہ اس ضمن میں مسائل کو حل کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ شمالی وزیر یستان میں طالبان کے خلاف بھرپور فوجی آپریشن کرنے کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی مذاکراتی عمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ دونوں طرف (حکومت و طالبان) ایسے مطالبات کیے گئے ہیں جن کا نیوز ایجنسی کی خبر میں ذکر کیا گیا ہے۔

چودھری نثار علی خان کا مزید کہنا ہے کہ شمالی وزیر یستان میں حالیہ محدود فوجی کاروائیاں اور فضائی حملے دہشتگردی کی حالیہ کاروائیوں کا رد عمل اور اس حوالے سے پہلے سے کیے گئے فیصلوں کا نتیجہ تھا کیونکہ ریاست پاکستان ہر قسم کے تشدد اور دہشتگردی کی کاروائیوں کا بھرپور جواب دینے کا حق رکھتی ہے اور پہل ہماری طرف سے نہیں کی جاتی۔وزیر داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں اس خبر کی بھی تردید کی گئی ہے جس میں رپورٹ ہوا ہے کہ وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت بڑے شہروں کی سیکیورٹی فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے نو تو ایسا کوئی فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے ،اور نیکٹا اس معاملے میں کسی طوپر بھی تعلق نہیں،اس حوالے سے اجلاس کی کاروائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ،حکومت صرف پولیس اور لاء انفورسمنٹ کے ادارے کی استعداد کار بڑھانا چاہتی ہے جس کے لئے ان اداروں آپس میں تعاون و رابطے اور ان پٹ کو بہتر بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

چودھری نثار علی خان نے مزید کہا ہے کہ مذاکرات کے معاملے پر خاموشی وقتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں جو غیر ملکی نیوز ایجنسی کی طرف سے بیان کیا گیا۔