حکومت یا سول ایسوسی ایشن کا ادارہ نہیں چلا سکتے،کیا یہ ضروری ہے کہ پاکستانی مسافروں کو ضروری فارم فرنچ،انگریزی ،عربی یا چینی زبان میں بھی دیا جائے ،اردو زبان میں یہ چیزیں کیوں نہیں دی جاتیں،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس،رجسٹرڈ تارکین وطن اپنے لوگوں سے دو دو سال بعد ملاقات کر پاتے ہیں ، غیر رجسٹرڈ لوگ یا تو کنٹینروں میں مر جاتے ہیں یا پھر ان کی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں ،ائیر پورٹس بناتے وقت مستقل کو مد نظر کیوں نہیں رکھا جاتا ،نئے ائیر پورٹ کی تعمیر بھی ایک سکینڈل ہے، سپریم کورٹ میں تارکین وطن مشکلات از خود نوٹس کیس کی سماعت

ہفتہ 24 مئی 2014 08:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24مئی۔2014ء)سپریم کورٹ میں تارکین وطن کو درپیش مشکلات پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امر تکلیف دہ ہے کہ جس مقدمے کو ہاتھ لگاتے ہیں وہی مقدمہ 40 سے50 سال پرانا ہوتا ہے۔ ہم حکومت یا سول ایسوسی ایشن کا ادارہ نہیں چلا سکتے،عدلیہ اور سول ایوی ایشن ایک دوسرے کی مخالف نہیں،عدالت نے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ازخود نوٹس لیا ہے ،کیا یہ ضروری ہے کہ پاکستانی مسافروں کو ضروری فارم فرنچ،انگریزی ،عربی یا چینی زبان میں بھی دیا جائے ،اردو زبان میں یہ چیزیں کیوں نہیں دی جاتیں،حالات یہ ہیں کہ رجسٹرڈ تارکین وطن اپنے لوگوں سے دو دو سال بعد ملاقات کر پاتے ہیں جبکہ غیر رجسٹرڈ لوگ یا تو کنٹینروں میں مر جاتے ہیں یا پھر ان کی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور پھر ان کی اپنوں سے زندگی بھر ملاقات نہیں ہوتی .

ائیر پورٹس بناتے وقت مستقل کو مد نظر کیوں نہیں رکھا جاتا ،نئے ائیر پورٹ کی تعمیر بھی ایک سکینڈل ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے جمعہ کو سماعت کے دوران مزید کہا کہ تارکین وطن ملک کو اربوں روپے کا زرمبادلہ ارسال کرتے ہیں ا ن کی تذلیل و تضحیک کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے لوگوں میں احساس مرگیا ہے ۔اس لئے ملک میں جو کچھ بھی ہوتا رہے اس کی کسی کو کوئی پرواہ بھی نہیں ہوتی ۔جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں تین رنی بنچ کو چیئرمین سول ایوی ایشن بورڈ اور ڈی جی نے بتایا کہ پاکستانیوں کی سہولت کے لئے اردو میں فارم چھپوایا گیا ہے ۔

لاہو اور اسلام آباد کے ائیر پورٹ میں وسعت لائی جارہی ہے جبکہ پشاور ائیر پورٹ کی توسیع کے لئے آرمی حکام سے ان کی اراضی کے حصول کے لئے بات چیت ہو رہی ہے ۔اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو بعد کی باتیں ہیں آج کا بتائیں کہ کیا ہو رہا ہے اور لوگوں کو کیا سہولیات دی جارہی ہیں ۔اگر وہ ہوائی جہاز کا سفر نہ کرتے تو انہیں کچھ بھی پتہ نہ چلتا کہ تارکین وطن کو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا ہے ۔

انہوں نے اس پر نوٹس لیاتھا۔

25 ائر لائنز کو کس نے کہا ہے کہ وہ لوگوں کو اس طرح سے زچ کرتی پھر یں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ نئے ائیر پورٹ کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے ۔عالمی معیار کا اس میں خیال نہیں رکھا جارہا۔جسٹس جواد نے کہا کہ آرٹیکل14 پڑھ لیں اس میں آپ کو لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ہم تو سب کو کہہ کر تھک گئے ہیں جن کو احساس ہوتا ہے وہ آنے والی مشکلات کا ادراک کر لیتے ہیں ۔مگر یہاں تک کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،اقدامات کر کے عدالت کو آگاہ کریں ۔بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :