اسلام آباد میں سراپا احتجاج سکھ برداری کی اچانک انٹری،شدیداحتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاوٴس کے احاطے میں داخل، حکومت اور سکھ سنگت کے درمیان مذاکرات کامیاب ، حکومت نے سکھ سنگت کے سات مطالبات مان لئے ،وفاقی حکومت سندھ حکومت کیساتھ یہ معاملہ بھرپور طریقے سے اٹھائے گی، راجہ ظفر الحق ، وزیر داخلہ چوہدری نثار کا پارلیمنٹ ہاؤس کے واقعہ کا سخت نوٹس ،سکیورٹی میں کوتاہی کے ذمہ دار ایس پی‘ 3 ڈی ایس پیز اور 3 ایس ایچ اوز کو فوری معطل کرکے چارج شیٹ پیش کر نے کی ہدایت

ہفتہ 24 مئی 2014 07:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24مئی۔2014ء)وفاقی دارالحکومت میں دلچپس صورت حال اس وقت دیکھنے کو آئی جب اچانک سکھ برادری ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے اور نعرے لگاتے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں نمودار ہوگئے، سکھ برادری کا کہنا تھا کہ شکایات اور احتجاج کے باجود سندھ کے مختلف علاقوں میں سکھ برادری کی مذہبی کتاب کی متعدد بار بے حرمتی کی گئی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جوشیلے اور مشتعل کارکنوں سے نبردآزما پولیس کیلئے اس وقت بوکھلاہٹ عروج پر پہنچ گئی، جب اچانک سکھ برادری کے لوگ نا گہانی آفت کی طرح نازل ہوگئے۔ سکھ برادری کے افراد نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اوربینرز اٹھائے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کرتے سکھوں کا کہنا تھا کہ اندورن سندھ مختلف شر پسندوں کی جانب سے ان کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی گئی۔

(جاری ہے)

پولیس اور صوبائی حکومت سے شکایات اور احتجاج ریکارڈ کرانے کے باجود کسی سو ان کی شنوائی نہیں ہوسکی، جس کے بعد وہ مبجوراً دارالحکومت میں سراپا احتجاج ہیں۔ سکھ برادری کے مشتعل مظاہرین نے اچانک پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر گھس کر ڈائس پر قبضہ کرلیا اور حکومت کے خلاف شدید نعرے لگائے، ان کا کہنا تھا کہ مقدس کتاب کی بے حرمتی میں ملوث افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلے پر پولیس کی جانب سے شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی، تاہم پر جوش مظاہرین تمام رکاوٹیں عبور کرکے اندر داخلے ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا۔ مظاہرین کی جانب سے شکایات کے ازالے تک پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے کو خالی نہ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ۔

حکومت اور سکھ سنگت کے درمیان مذاکرات کامیاب ، حکومت نے سکھ سنگت کے سات مطالبات مان لئے ، وفاقی حکومت سندھ حکومت کے ساتھ یہ معاملہ بھرپور طریقے سے اٹھائے گی ۔

جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سکھ سنگت کے سو سے زائد ورکر پارلیمنٹ کا مین دروازہ توڑ کر اندر گھس آئے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی تاریخ میں پارلیمنٹ کے اندر مظاہرین کا گھس آنا پہلا واقعہ ہے ۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سکھ سنگت کے قائد گوپال سنگھ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سکھوں کے مقدس عبادتگاہوں اور مقدس کتاب کی بے حرمتی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی بے حرمتی کرنے والے واجب القتل ہیں ۔

سکھ سنگت کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جن میں گوپال سنگھ ، ملہندر سنگھ ، ریویندر سنگھ ، اوتار سنگھ ، مہیش سنگھ ،کلویندر سنگھ ، رمیش سنگھ ، کاکا سنگھ ، چیرن جیت سنگھ اور منگل سنگھ اور حکومت کی جانب سے کمیٹی کی قیادت سید ظفر علی شاہ ، سینیٹر نثار محمد خان ، سینیٹر سردار علی خان ، اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر درشن لال نے سکھ سنگت کے مطالبات سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کے علم میں لائے اور اسی اثناء میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے نوٹس میں تمام تر صورتحال لائی گئی ۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے وزیراعلیٰ سندھ سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی نشست پر موجود نہ تھے جس پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سکھ سنگت کے تمام مطالبات وزیراعظم کے علم میں لائے جائینگے حکومت اقلیتی برادری کے تحفظ پر مکمل یقین رکھتی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ سکھ سنگت نے پانچ مطالبات پیش کئے جن میں گرو گرنتھ کی پانچ مرتبہ بے حرمتی کی گئی ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ، سکھ ضابطہ اخلاق کے تحت اگر وہ گرو گرنتھ کو واپس نہیں لاسکتے تو خاموشی سے گوردوارے میں لا کر رکھ دیں ، پوری دنیا میں تاثر ہے کہ سکھ پاکستان میں خوش ہیں مگر سندھ میں گوردوارے غیر محفوظ ہیں ، انہوں نے کہا کہ تمام میوزیم اور لائبریریوں میں اسلوب کی کتابوں کو واپس گوردوارے میں رکھی جائیں ۔

سکھ سنگت کا احتجاج حکومت کی یقین دہانی پر پرامن طورپر ختم ہوگیا ۔دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پیش آنیوالے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سکیورٹی میں کوتاہی کے ذمہ دار ایک ایس پی‘ 3 ڈی ایس پیز اور تین ایس ایچ اوز کو فوری طور پر معطل کرتے ہوئے چارج شیٹ کی ہدایت کردی۔ وفاقی وزیر نے جمعہ کے روز وفاقی دارالحکومت کی سکیورٹی صورتحال پر غور کیلئے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی ۔

اجلاس میں وفاقی وزیر نے آئی جی پولیس سے کہا کہ وہ وردی پہننے والے ہر فرد کے ذہن میں یہ خیال پیدا کریں کہ اسے چوکس اور ذمہ دار ہونا چاہیے کیونکہ شہر کی تمام سکیورٹی کا انحصار اس پر ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی پولیس اور رینجرز پر مشتمل ریپڈ رسپانس فورس 24 گھنٹے جڑواں شہروں میں پٹرولنگ کرے گی ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز نے وفاقی وزیر کو آگاہ کیا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے سکھوں کو مذاکرات کے ذریعے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کی اجازت دی تھی تاہم آخری لمحے پر اسلام آباد پولیس کو پی ٹی آئی کی ریلی پر متوجہ دیکھ کر سکھ ریلی نے مفاہمت کی مکمل خلاف ورزی کی اور پارلیمنٹ کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔

اجلاس میں چیئرمین نادرا نے وفاقی وزیر کو آگاہ کیا اور سیف سٹی منصوبے کے تحت کمانڈ سنٹر پر کام کا آغاز اگلے ماہ شروع ہوجائے گا اور ستمبر کے آخر تک یہ تیار ہوجائے گا۔