کم عمری میں نکا ح جائز مگر رخصتی سن بلوغت کے بعد ہی ہوگی، بالغ ہونے کے بعد متفق نہ ہونیوالا خیار بلوغ کا اختیار استعمال کرسکتاہے ،اسلامی نظریاتی کونسل، نکاح فیس ختم کرنے کی سفارش، دوسری شادی کیلئے یونین کونسل سے اجازت غیر اسلامی قرار

جمعرات 22 مئی 2014 07:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22مئی۔2014ء)اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری میں نکا ح کو جائز قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ رخصتی سن بلوغت کے بعد ہی ہوگی، بالغ ہونے کے بعد نکاح سے متفق نہ ہونے کی صورت میں خیار بلوغ کا اختیار متاثرہ شخص استعمال کرسکتاہے جبکہ نکاح فیس ختم کرنے کی سفارش کی ہے اور دوسری شادی کیلئے یونین کونسل سے اجازت کو بھی غیر اسلامی قرار دیدیا ہے اور کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ قیمتاً ، قتل کے بدلے ونی و سورہ کے نکاح غیر شرعی یااسی طرح کی رسومات کے بدلے ہونے والے نکاح شرعی تصور نہیں ہونگے اور باپ داد بھی چاہیں تو اس طرح کا نکاح کا اختیار نہیں رکھتے،اسلامی نظریاتی کونسل آئینی ادارہ ہے اسے کو ئی بھی ختم نہیں کرسکتا، سندھ اسمبلی کی قرارداد غیر آئینی و جذباتی ہے، اینکرپرسن اینکری کریں اداکار نہ بنیں، میڈیا بھی فحاشی و عریانی پر مبنی پروگرام روکے اور اپنے پروگرام اخلاقیات کے دائرے میں کئے جائیں۔

(جاری ہے)

اسلامی نظریاتی کونسل کا 195واں دو روزہ اجلاس کے اختتامی سیشن بھی بدھ کو چیئرمین محمد خان شیرانی کی زیر صدارت صدر دفتر میں منعقد ہوا، اجلاس میں کونسل اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس میں سابق ہونیوالے کونسل کی سفارشات کی توثیق کی گئی جبکہ مسلم عائلی قوانین پر غور و خوض ، خیار بلوغ کی بحث ، قانون انفساح مسلم ازدواج 1939ء ،کرسچین میرج و طلاق، ہندو شادی و طلاق بل ،تحفظ پاکستان آرڈیننس، قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ ، فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کیلئے ضابطہ اخلاق کی تجویز سمیت 20 نکاتی ایجنڈا پر غور کرنا تھا مگر قلت وقت کے باعث صرف مسلم عائلی قوانین اور کرسچین میرج و طلاق(ترمیمی) بل 2012ء اور ہندو میرج بل 2013ء شرعی نقطہ نظر سے ہی زیر بحث آئے ۔

دو روزہ اجلاس کے اختتام پر پریس بریفنگ کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ سابق اجلاس کے ایجنڈا میں جو نکات رہ گئے تھے ان پر اجلاس میں غور کیاگیا ۔

انہوں نے بتایا کہ مسیحی برادری اور ہندوبرادی کی شادی و طلاق سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا اور اس سلسلے میں دونوں کمیونٹیز کے نمائندوں کو طلب کیا تھا جس پر ڈاکٹر رمیش نے ہندو جبکہ ایم این اے آسیہ ناصر نے مسیحی برادری کی نمائندگی کی اور اس سلسلے میں کچھ تجاویز دیں جس پر وزارت قانون اور قومی اسمبلی سے مذکورہ بل کا مسودہ طلب کرلیاہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اسلام کسی مذہب کے ماننے والوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا مذہب کا انتخاب کسی بھی شخص کا حق ہے تاہم مذہب سے انحراف سزا ہونی چاہیے ۔انہوں نے ایک سوال پر کہاکہ شراب ہر مذہب میں حرام ہے اور کسی بھی مذہب میں اس کی گنجائش نہیں ہے اس لئے اقلیتی برادری کے تہواروں میں بھی شراب پر پابندی عائد کی جائے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں بل بھی جمع کرایاگیا۔

چیئرمین نظریاتی کونسل نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہاکہ مسلم عائلی قوانین پر غور و خوض کیا گیاہے انہوں نے کہاکہ دوسری شادی کے حوالے سے مسلم عائلی قانون 1961ء میں دفعہ 6 کو حذف کیا ہے کیونکہ یہ غیر شرعی ہے جس کے تحت دوسری شادی کیلئے مرد کو عورت کی بجائے چیئرمین یونین کونسل یا لوکل گورنمنٹ سے اجازت ضروری تھی ورنہ دوسری صورت میں ایک سال قید و پانچ ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں تھیں اور جب تک اجازت نہ لی جاتی تو اولاد کو اس کے جائز حق سے محروم رکھے جانے کی بات کی گئی اور اسی طرح طلاق کی صورت میں بھی کچھ پیچیدگیا ں تھیں جوکہ غیر شرعی ہے اس لئے اس کو ختم کردیاگیاہے جبکہ اس بات کو غلط انداز میں پیش کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ نکاح یا طلاق خالصتاً اسلامی مسائل ہیں جن میں کوئی چیئرمین اس کی اتھارٹی نہیں رکھتا اسی بل کی دفعہ 11 کے تحت متعلقہ اداروں کو اختیار دیاگیا تھا جسے ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ نکاح کوسہل و آسان بنانے کی خاطر نکا ح کی فیس بھی ختم کردی ہے تاکہ گناہ کی شر ح کو ختم یا کم از کم کسی حد تک بہت کم کیا جاسکے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ اجلاس کا ایجنڈا پہلے سے طے شدہ تھا اگر کسی ممبر کو میڈیا کے حوالے سے پریشانی تھی تو وہ خود اس پر بات کرے البتہ اجلاس میں کوئی معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔

انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ باپ اور دادا کی مرضی سے کم عمری میں نکا ح کیا جاسکتا ہے البتہ رخصتی بلوغت کے بعد ہی ہوگی البتہ کسی معاملے پر اگر بچہ یا بچی کی کم سنی میں باپ یا دادا کی غیر موجودگی میں نکاح کیا جائے اور سن بلوغت کے بعدمذکورہ شخص یا عورت اس نکاح کو ختم کرنا چاہے تو خیار بلوغ کی حیثیت سے وہ اسے ختم کرسکتی ہے اور عدالتیں بھی اس فیصلے کی پابند ہوں گی البتہ اگر یہ نکاح والد یا داد ا کرے تو اس صورت میں خیار بلوغ کا اختیار استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہاکہ قیمت کے بدلے ، قتل کے بدلے (ونی و سورہ کے نکاح غیر شرعی)یااسی طرح کی رسومات کے بدلے ہونے والے نکاح شرعی تصور نہیں ہونگے اور باپ داد بھی چاہیں تو اس طرح کا نکاح کا اختیار نہیں رکھتے۔ چیئرمین نظریاتی کونسل نے مزید کہاکہ باکرہ لڑکی سے مرضی پوچھنا اور اس کی والدہ کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے جبکہ بیوہ یا مطلقہ خاتون سے مشاورت ضروری ہے۔

انہوں نے مزید بتایاکہ اسلامی نقطہ نگاہ9 سال کی عمر میں اگر بلوغت کے آثار نمایاں ہوجائیں تو لڑکی بالغ تصور ہوگی جبکہ لڑکا 12سال کی عمر میں، اسی طرح آثار نظر نہ آنے کی صورت میں لڑکی 12سال اور لڑکا 15 سال کا بالغ تصور ہوگا۔ انہوں نے مزید بتایاکہ میڈیکل سائنس کی رپورٹ کے مطابق 6 سال کی بچی بھی بعض علاقوں میں بالغ ہوجاتی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ تحفظ پاکستان بل اور قومی داخلی سلامتی پالیسی ایجنڈا پر تھے مگر زیر بحث نہ آسکے یہ معاملات آئندہ اجلاس میں زیر بحث آئینگے ۔

چیئرمین نظریاتی کونسل نے مزید کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل آئینی ادارہ ہے اور ایک بار تشکیل کے بعد صدر بھی اس ادارے کو ختم نہیں کرسکتا، سندھ اسمبلی کی قرارداد غیر آئینی اور جذباتی قرارداد ہے۔ مولانا شیرانی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ قانون ہاتھ میں لینا کسی بھی ادارہ یا شخصیت کا حق نہیں ہر ایک کو آئین کے دائرہ میں رہنا چاہیے البتہ میڈیا بھی فحش پروگراموں سے اجتناب کرے اور خیال کریں کہ ان کا پروگرام اخلاقی دائرہ کے اندرہے ۔ انہوں نے کہاکہ اینکر پرسن خود کو اداکاروں سے علیحد ہ کریں اور اداکارکی بجائے اینکرپرسن بنیں۔

متعلقہ عنوان :