خیبر پختونخوا کو گندم کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے پر پنجاب جبکہ غریب لوگوں کو آٹا اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی بارے وفاق اور صوبوں سے 28 مئی تک جواب طلب، سپریم کورٹ حکومت ہے اور نہ ہی حکومت چلانا چاہتی ہے تاہم لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنایا جائیگا،جسٹس جواد،لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چمن کے راستے گندم ،آٹا سرحد پر بھجوایا جارہا ہے،چوہے گندم کھا رہے ہیں اور اگر گندم شجر ممنوعہ ہے تو صرف غریب لوگوں کے لئے ، کیا غریب داتا دربار چلا جائے یا حکومت آٹا کھانے کو دے گی،حکومت پنجاب کا اصرار ہے کہ اس کے اقدامات غریبوں کے لئے انقلابی ہیں تو کیاپنجاب کے لوگ خوشحال ہوگئے ہیں؟فاضل جج کا سوال، وفاق اور صوبوں کوآئین کے آرٹیکلز9 ،14 اور38 پر عملدرآمد کرانا ہوگا،جسٹس گلزار

بدھ 21 مئی 2014 07:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21مئی۔2014ء)سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کو گندم کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے پر حکومت پنجاب جبکہ غریب لوگوں کو آٹے اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بارے وفاق اور صوبوں سے 28 مئی تک جواب طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے یہ حکم جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کے دوران منگل کے روز جاری کیا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ حکومت ہے اور نہ ہی حکومت چلانا چاہتی ہے تاہم لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنایا جائیگا۔

41 سال گزر گئے عام آدمی کو صرف تجاویز پر ٹرخایا جارہا ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چمن کے راستے گندم ،آٹا اور دیگر اناج سرحد پر بھجوایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

غریب آدمی کیا کرے یا مر جائے۔ ترپالوں ،گوداموں میں گندم پڑی سڑ رہی ہے ۔چوہے گندم کھا رہے ہیں اور اگر گندم شجر ممنوعہ ہے تو صرف غریب لوگوں کے لئے ۔بین الاقوامی معیار زندگی کی مثالیں دینا چھوڑ دیں ۔

حکومت اپنے اپنے علاقوں میں غریب لوگوں کی فکر کریں۔ کیا غریب داتا دربار چلا جائے یا حکومت آٹا کھانے کو دے گی ۔ حکومت نے جو کچھ کرنا ہے خود کرنا ہے ہم قانون سازی نہیں کر سکتے۔ حکومت پنجاب کا اصرار ہے کہ اس کے اقدامات غریبوں کے لئے انقلابی ہیں تو عدالت پوچھتی ہے کہ کیاپنجاب کے لوگ خوشحال ہوگئے ہیں؟ وہاں کے لوگوں کو گندم اور آٹا کم نرخوں پر دستیاب ہے تو ہم کیس ان کی حد تک بند کر دیتے ہیں ۔

ہم ڈائریکٹو جاری نہیں کریں گے ۔وفاق اور صوبے غریب لوگوں کی ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنائیں ۔جماعت اسلامی بھی اسمبلی میں موجود ہے وہ حکومت سے قانون سازی کے لئے کیوں آواز نہیں اٹھاتی ۔سارا کام عدالتوں نے نہیں کرنا ۔اگر سارے کام ہم نے ہی کرنا ہیں تو پھر حکومتوں کے کیا فرائض باقی رہ جاتے ہیں ۔انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاق اور صوبوں کوآئین کے آرٹیکلز9 ،14 اور38 پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے وفاق اور صوبوں سے رپورٹ طلب کی ۔جس پر صوبوں نے رپورٹس جمع کروائیں ۔

خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا کہ حکومت پنجاب 4500 میٹرک ٹن گندم کا مختص کوٹہ دینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ پنجاب کے گندم سے بھرے ٹرک چمن بارڈر کراس کرتے ہیں۔اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت نے بھی اس معاملے پر تحقیقات کرائی ہیں ۔عدالتی معاون تو ہوتی نہیں کیونکہ اب حالات یہ ہیں اور ریت پڑ گئی ہے کہ گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔

ہم بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔وکلاء اور عدالت کا یہ مشترکہ کاز ہے کہ آئین کے آرٹیکل (3)184 کے مقدمات میں کچھ زیادہ ہی کوشش کرنا ہوگی ۔یہ ایک قومی ایشو ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ صوبوں میں اس میں کس حد تک اختیار دیا گیا دنیا بھر میں غذائی ضروریات پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔مگر یہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بھوکے مررہے ہیں اور کس کو اس کی پرواہ تک نہیں ہے۔

اب عدالت یہ تو کر نہیں کر سکتی کہ کوئی عدالت کی معاونت نہ کرے تو عدالت بھی کچھ نہ کرے ہم سے جو کچھ ہو سکا ضرور کریں گے۔ لوگوں کو بھوکا دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں تو ان کی ضرورت کے مطابق گندم پیدا ہوتی ہے ۔مسئلہ تو زیادہ تر خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کا ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ چمن بارڈر کے پاس12 فلور ملز ہیں جن سے تمام تر آٹا سرحد پر جاتا ہے ۔

درخواست گزار کے وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بھی کچھ ریسرچ کرائی ہے ۔دوران سماعت خیبر پختونخواہ کو گندم کی ترسیل نہ ہونے پر عدالت نے حکومت پنجاب سے جواب بھی طلب کیا ۔عدالت نے کہا کہ تمام لوگ ایک دوسرے کے جوابات کا تبادلہ کر لیں اور عدالتی تحقیقات کا بھی جائزہ لے لیں سب کو عدالت کاپی فراہم کرے گی ۔ ساڑھے گیارہ بجے اس کیس کی دوبارہ سے سماعت کی جائے گی ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ بھی پیش ہوئے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آٹے کی قیمتوں بارے پوزیشن المناک ہے ۔دنیا بھر کے ملکوں کا مسئلہ ہے یہ پاکستان کے لئے انوکھا مسئلہ نہیں ہے ہم سب کو کچھ حدود ہیں ۔بہت سے لوگ جو رضا کارانہ طور پر خدمات سرانجام دیں گے ۔یہ نیشنل کاز ہے ۔لوگوں کو اناج نہیں مل رہا یا ساڑھے23 سو کیلوریز نہیں مل رہی ہیں دنیا بھر کی تحقیقات پر مشتمل رپورٹ آپ کو دی ہے اس کا جائزہ لے لیا ۔

توفیق آصف نے بتایا کہ 2013 میں نیشنل فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ صوبوں نے اس ملک میں بہت کچھ کرنا ہے ۔وفاق تو کھانے پینے کی فراہمی کا ذمہ داری ہے ۔سیکرٹری سرکار ہے م تو صرف آئیڈیا دے سکتے ہیں ۔ہم حکومت نہیں چلا رہے ہیں اور نہ ہی چلانا چاہتے ہیں مگر جہاں جہاں بنیادی حقوق عوام الناس کو بہتر نہ ہوں گے تو ہم سے جو کچھ ہو سکا کریں گے یہ حقوق آئین نے دیئے ہیں ۔

آرٹیکل9،14 اور38 میں سب کچھ موجود ہے ۔جب بھی آئین پڑھتا ہوں تو قانون سازی کرنے والوں پر رشک آیا ہے۔آئیڈل آئین ہے اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے ۔41 سال گزر گئے حکومت صرف آئیڈیا اپنے ذہن میں نہ رکھے اس پر عملدرآمد بھی کرائے۔ سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت سے رابطہ کیا ہے اس حوالے سے کئی پروگرام 70 بلین خاندانوں کو دیئے جارہے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ غریب ترین طبقہ اور امیر ترین طبقہ سبسڈیز آٹا کھا رہے ہیں ۔آپ نے تجویز دیں تھیں کہ اس میں فرق روا رکھا جائے۔آج بازار میں آٹا مہیا ہو رہا ہے ۔500 روپے فی 20کلو گرام فروخت ہو رہا ہے تو بتا دیں۔آپ کو قانون میں کوئی کچھ بتلا دیتا ہے ۔آپ اس کو حقیقت مان لیتے ہیں۔1150 روپے فی 20 کلو گرام راولپنڈی میں فروخت ہوتا رہا ہے۔

چمن بارڈر پر تین تین چار چار کلو میٹر تک ٹرکوں کی قطار لگی ہوتی ہے ۔آٹا ،گندم اور کھاد سرحد پار جاری ہے ۔ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب ہو رہا ہے ۔آپ اس کے گواہ ہیں۔عتیق شاہ نے کہا کہ آٹے کی ترسیل ہی کور ایشو ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے تو درخواست نہیں دی یہ چھٹی تو لیاقت بلوچ نے لکھی ہے اس دن سے کام کررہے ہیں ۔تھوڑی سی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔

غریب آدمی کیا کرے۔ اس مرض ا مداوا حکومت نے کرنا ہے ہم تین لوگ اٹھ کر آٹا چیک نہیں کر سکتے ۔آئین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ہم تو حکومتوں سے ہی پوچھنا ہے اس بار گندم سنا ہے باہر گئی ہے ۔ہماری پیداوار کافی ہے شرط یہ ہے کہ اناج ادھر ادھر نہ جائے اور چوہے نہ کھا جائیں۔ ترپالوں کے نیچے گندم پڑی ہوئی سڑ رہی ہے ۔چوہے کھا رہے ہیں۔ سیکرٹری وزارت نے بتایا کہ ہماری گندم گوداموں میں رکھی جاتی ہے ۔

مشینوں کے ذریعے غلے کا تحفظ ممکن نہیں رہا۔ اناج کے ضائع ہونے کی مقدار 8 فیصد ہے۔ ہم گندم باہر نہیں بھیج رہے ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ایک کنبہ جو غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اس کی زندگی گزارنے کا معاملہ ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ہم آرٹیکل38 ،9 ،14 کی بات کررہے ہیں ۔بتائیں حکومت ان پر کیا عملدرآمد کررہی ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ اور اس کے کیا نتائج ہیں ۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ معاشی حالات کو چھوڑ دیں ۔آئین و قانون کی بات کریں۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بہت وقت لگایا ہے اس حوالے سے بھارتی نظام دیکھا ہے اس کا بھی جائزہ لے لیں۔ہم تحقیق میں اس کا بھی جائزہ لینا ہے ۔یہ صرف پاکستان کا ایشو نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک نے اس پر کام کیا ہے۔ غریب ترین طبقہ ہے اس کو ساڑھے23 سو کیلوریز کی ضرورت ہے کیسے فراہم ہوگی ۔

کم سے کم خوراک کا لیول لوگوں کو میسر ہے یا نہیں ۔یہ سب چیزیں آسان دستیابی کے تحت ہونی چاہیے۔ سبزی ،پھل ،دودھ،سکول کی فیس ،وغیرہ کے مسائل ۔داتا دربار پر لنگر تو آج بھی مل رہا ہے مگر باقی ضروریات کیسے پوری ہوں گی ۔ غریب بے چارہ تفریح تو کرہی نہیں سکتا۔ آج دودھ کم اور پانی زیادہ مل رہا ہے ۔ایک لاکھ سے زائد ڈیٹا اکٹھے کرنے والے لوگ موجود ہیں ۔

ہمیں بنیادی ضروریات چاہئیں۔سیکرٹری نے بتایا کہ53 اشیاء ہیں جن پر ٹیکس میں کمی کی جاتی ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ بین الاقوامی معاملات پر انحصار کرنا چھوڑ دیں ۔اپنے نظام کا خود جائزہ لیں۔بشری آرائیں نے کہا کہ100 خاندانوں کا جائزہ لے لیں۔سب معلوم ہو جائے گا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ لوگوں کو خوراک میسر ہو۔قابل برداشت قیمتوں پر یہ اشیاء دستیا ہیں یا نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفی رمدے نے بتایا کہ اس سال فصلوں1820 روپے فی من قیمت کسان کو برداشت کرنا پڑی ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ غریب لوگوں کو کم قیمت پر اناج دیں ۔پہلے راشن ڈپو ہوتے تھے جو لوگوں کو فائدہ دیتے تھے یہ ہمارا کام نہیں ۔یہ حکومت کا کام ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ نجانے کتنے لوگوں کو آپ خوراک کے لئے پیسہ دیے ہیں اس کا کیا فائدہ ،خوراک تو دیں اس سے کھاتہ پورا نہیں ہوگا ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ پیسہ دیں نہ دیں ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔ ساڑھے 37 روپے پنجاب میں فی کلو گرام آٹے کی قیمت مقرر ہے ۔750 بہاولپور جبکہ راولپنڈی میں 1150 روپے 20 کلو گرام کا تھیلا مل رہا ہے ۔رزاق اے مرزا نے کہا کہ ہر جگہ گندم کے نرخ وہاں کے حالات کی وجہ سے مختلف ہیں ۔فائن آٹا اور ریگولر آٹے میں فرق ہے۔ جسٹس جواد نے رزاق مرزا سے کہا کہ کیا خیال ہے کہ ہم پنجاب کی حد تک کیس ختم کر دیں وہاں بہت خوشحالی ہے ۔

لوگوں کو قابل برداشت نرخوں پر آٹا مل رہا ہے ۔آپ اگلی تاریخ پر نہ آئیں۔اس پر رزاق اے مرزا نے مزید بولنے کی کوشش کی تو عدالت نے روک دیا ۔ایک وکیل نے بتایا کہ پانچ ارب روپے سے بینک گندم خریدتے ہیں اور اس پر سود 68 کروڑ وصول کرتے ہیں یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے ۔اگر ایک بار آپ کر کے دیکھ لیں فی کلو تین روپے نرخ کم ہو جائے گا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ پانچ حکومتوں نے جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔

آپ اس بارے کوشش کریں۔مشترکہ مشاورت سے میں اس کا حل بتلا دیں۔ حکومت اگر کوئی کوشش کرے گی تو اس کا قوم پر کوئی احسان نہیں ہوگا۔ ہم نے تو کہہ رکھا ہے کہ لاء افسران بتلائیں عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل بھی اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں جو اقدامات آپ کر لیتے ہیں یا اتنے عرصے میں فلاں اقدامات ہو جائیں گے تب ہم کچھ مطمئن ہوں گے۔

توفیق آصف نے کہا کہ میری تجویز ہے 2012-13 ء میں70 ارب روپے حکومت نے خوراک کے لئے رکھے تھے ۔جسٹس جواد نیک ہا کہ ہم بجٹ کے معاملات پر نہیں جائیں گے ۔آپ کی سیاسی جماعت ہے وہ خود اسمبلی میں معاملہ اٹھائے۔بجٹ بنانا اسمبلی کا کام ہے۔ عتیق شاہ نے کہا کہ عدالت اس حوالے سے کوئی ڈائریکٹو جاری کرے۔اس پر جسٹس جواد نے برہمی کا اظہار کیا کہ ہم کیوں ڈائریکٹو جاری کریں یہ کام حکومت خود کرے۔

حکومت پنجاب خیبر پختونخواہ کے کوٹے کے حوالے سے جلد اقدامات کرے۔اس کو ہم آرڈر کا بھی حصہ بنا رہے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے حکمنامہ تحریر کراتے ہوئے عدالتی تحقیقاتی عملے نے دنیا بھر کے ممالک میں خورا ک کے حوالے سے تمام تر تحقیق کی ہے۔ آٹے کی غریب آدمی کی فراہمی حکومت کا فریضہ ہے۔جنوبی افریقہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی اس حوالے سے کافی کام کیا ہے۔

وفاق اور صوبوں عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے مشترکہ رپورٹ جمع کروائیں۔اٹارنی جنرل پاکستان فوڈ سیکرٹریز معاونت کریں۔ترجیحی بنیادوں پر ایمر جنسی کی شکل میں اس کیس بارے کام کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ۔لاء افسران عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے بارے نتائج اثرات بارے عدالت کو آگاہ کریں ۔خیبر پختونخوا لاء افسران نے بتایا ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کو پنجاب حکومت گندم بھجواتی ہے مگر اب یہ گندم نہیں دی جارہی ہے۔ پنجاب کے علاقوں سے آنے والی گندم کو ہمارے صوبوں میں آنے سے روکا جارہا ہے اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جواب پیش کریں اور اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا ۔کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی ۔