سپریم کورٹ نے یو ایس ایف اور تھری جی‘ فور جی کی نیلامی سے حاصل ہونے والی کھربوں روپے کی رقم حکومتی فنڈز میں جانے کی اجازت دے دی ،درخواست نمٹادی، عدالت نے 29 جون 2013ء کو پی ٹی اے رولز میں ہونے والی ترامیم کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کی اطہر من اللہ کی استدعاء بھی منظور کرلی‘ ، فی الحال یو ایس ایف کے پاس کافی رقم موجود ہے وہ جب چاہیں اپنی ضرورت کے مطابق حکومت سے رقم حاصل کرسکتے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ، عوامی پیسہ آئین و قانون کے مطابق عوامی مفاد میں استعمال ہونا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

منگل 20 مئی 2014 07:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20مئی۔2014ء) سپریم کورٹ نے یو ایس ایف اور تھری جی‘ فور جی کی نیلامی سے حاصل ہونے والی کھربوں روپے کی رقم حکومتی فنڈز میں جانے کی اجازت دے دی ہے اور درخواست نمٹاتے ہوئے درخواست گزار سے کہا ہے کہ اگر انہیں رقم کے غلط استعمال بارے اگر کوئی تحفظات پیدا ہوتے ہیں تو وہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

عدالت نے 29 جون 2013ء کو پی ٹی اے رولز میں ہونے والی ترامیم کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کی اطہر من اللہ کی استدعاء بھی منظور کرلی‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ فی الحال یو ایس ایف کے پاس کافی رقم موجود ہے وہ جب چاہیں اپنی ضرورت کے مطابق حکومت سے رقم حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ فیصلہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے پیر کے روز جاری کیا۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ انتخابات ہوچکے ہیں اور عوامی نمائندے منتخب ہوچکے ہیں۔ عوامی پیسہ آئین و قانون کے مطابق عوامی مفاد میں استعمال ہونا چاہئے۔ تھری جی کیس میں درخواست گزار خرم شہزاد چغتائی کی جانب سے علی رضا ایڈووکیٹ اور عدالتی نوٹس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان پیش ہوئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ آئینی و قانونی نکات پر فارمولیشن تیار کرلی گئی ہے۔

عدالت نے 16 اپریل 2014ء کو اس کا حکم دیا تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ میں اس ایشو پر پریشان تھا۔ رولز بھی دیکھ لیں گے ادھر پیسہ کیا کرے گا۔ علی رضا نے کہا کہ قانون بنانے والے ایسا کرسکتے ہیں اور قانون بناسکتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ کیا فور جی ہوگیا ہے اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ تھری جی کا ایک لائسنس زونگ نے حاصل کرلیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ تفصیلات بتادیں تاکہ ہمیں بھی پیسہ آنے کی خوشی ہو۔

پیمرا کے چیئرمین اسماعیل شاہ نے بتایا کہ 23 اپریل 2014ء کو نیلامی ہوگئی ہے۔ تھری جی میں دس میگنٹ دینا ضروری تھا تبھی فور جی کا لائسنس دیں گے۔ 200 ملکوں میں تھری جی ٹیکنالوجی استعمال ہورہی تھی جبکہ 102 ملکوں میں فور جی ٹیکنالوجی کام کررہی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے کوشش کی کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ تھری جی کیساتھ ساتھ فور جی کی نیلامی کا بھی فیصلہ کیا تھا۔

اس میں دو پیشکشیں کی تھیں۔ ہم نے مناپلی پیدا نہیں کی‘ تھری جی میں کامیابی ضروری قرار دی تھی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم تکنیکی ماہر نہیں ہیں ہمارا دائرہ کار بھی محدود ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پیسوں کی وصولی سے زیادہ ٹیکنالوجی کا حصول ضروری ہے۔ 22 مئی تک مکمل پیسہ آتا ہے۔ دو کمپنیوں نے پیسہ دے دیا ہے۔ 50 فیصد ایڈوانس اور باقی پانچ سالوں میں پیسے دینے تھے‘ بقیہ دو نے یکمشت جمع کروانے کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ایف بی آر اس حوالے سے ٹیکس بھی وصول کرلے گا۔

فور جی کے حوالے سے دو کمپنیوں نے رجوع کیا تھا ایک کمپنی کوالیفائی نہیں کرسکی۔ فور جی میں صرف ایک آپریٹر آیا ہے جس سے اس کی ویلیو بڑھ جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس سے بیلنس پیدا ہوگا اور دوسروں کو بھی اس مقابلے کا رحجان پیدا ہوگا۔ کیا زونگ نے مطلوبہ شرائط پوری کی ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 210 ملین ڈالر ریزرو قیمتیں مقرر کی گئی تھیں اور زونگ نے تمام شرائط پوری کی ہیں اور تھری جی کے 10 میگنٹ بھی خریدے تھے۔

موبی لنک نے 10 میگنٹ‘ یوفون اور دیگر نے پانچ پانچ میگنٹ لئے ہیں‘ کھربوں روپے بنتے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ فورجی سپیکٹرم کب تک مکمل ہوگا۔ عدالت نے بتایا کہ 40 میگنٹ کی نیلامی رکھی تھی 2300 میگنٹ اور بھی موجود ہیں اس کی بھی نیلامی کی جائے گی۔ جسٹس جواد نے علی رضا سے کہا کہ بہت کچھ ہمارے سامنے واضح ہوچکا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اب رولز کیا کہتے ہیں‘ 1.22 کھرب روپے بنتے ہیں۔

رولز 33 سی کی تشریح کیلئے اٹارنی جنرل سے معاونت مانگیں گے۔ ابھی جو یہ نیلامی ہوئی ہے ا سکے پیسے کے مالک کون ہوں گے یہ ویسے تو عوامی پیسہ ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ تمام اداروں کو یہ سکیل چاہئے ہوتے ہیں اب تک فائیو جی ٹیکنالوجی بھی آگئی ہے۔ کمتر ٹیکنالوجی کا استعمال سیلولر فون کیلئے ہوتا ہے۔ باقی دوسرے ادارے استعمال کرتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انتخابات ہوگئے‘ عوامی نمائندے بھی منتخب ہوگئے۔

لوجیکلی یہ اتنی بڑی رقم کہاں جائے گی؟ پہلا ایشو انتظامی تھا اب قانونی ایشو آیا ہے اٹارنی جنرل معاونت کریں اس پر اے جی نے سیکشن 33 پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کا پیسہ یو ایس ایف فنڈز میں جائے گا۔ اے جی نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ فنڈز ہوتا کیا ہے اور جاتا کہاں ہے؟ اس کو الگ استعمال نہیں کرسکتے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اسی ایشو پر بحث کی تھی اگر یہ عوامی پیسہ ہے تو پبلک کنسالیڈیٹڈ فنڈز میں جائے گا۔

یو ایس ایف فنڈز عوامی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ آپ کے اپنے فیصلوں میں یہ کہا گیا تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ دو ایک مقدمے آئے تھے جن کے تاحال فیصلے نہیں ہوئے اس کا آڈیٹر جنرل آڈٹ کریں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عوام کا پیسہ عوام کے پاس ہی جائے گا۔ 11 کھرب اگر اکٹھا ہوگیا ہے تو یو ایس ایف فنڈ میں نہیں جائے گا۔ حکومت کے پاس صرف کنٹرول ہے استعمال نہیں کرسکتی۔

اس کیس میں کسی لمبے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے یہ پیسہ بولی کے ذریعے آیا ہے کس کے پاس جائے گا۔ قانون بنانے والے اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اتنا زیادہ پیسہ ناردرن علاقوں میں کیسے خرچ ہوگا؟ اس کا فیصلہ تو بہت آسان ہے۔ اے جی نے اپنے دلائل بارے پیپر بکس جمع کروائیں۔ اے جی نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دئیے۔ عدالت نے اسماعیل شاہ سے پوچھا کہ اگر کارکردگی یو جی کے حوالے سے صحیح نہیں ہوتی تو پھر کیا کرنا ہوگا۔

اسماعیل شاہ نے بتایا کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی آگے بڑھے گی اس کا استعمال بھی بڑھے گا۔ غیر فعال یونٹس کی کارکردگی بڑھانا ہوگی۔ اے جی نے کہا کہ تمام رقوم قانون کے مطابق استعمال ہوں گی۔ عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں بات صحیح نہیں لگ رہی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس کے قانونی نکات پر بحث کرنا ہوگی۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 78 کے ہوتے ہوئے کیا قانون ساز اس رقم کو اپنی مرضی سے کہیں رکھ سکتے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اکیڈیمک ایکسرسائز نہیں کریں گے۔ فنڈز کوئی بھی ہوں ان کے کھاتے بن سکتے ہیں۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکشن 33 سی کو نہ دیکھا جائے تو رقم پبلک اکاؤنٹ میں ہی جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سارے پیسے یو ایس ایف کی بجائے ایف سی ایف میں جائیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر کسی موقع پر ریورس آکشن ہوتا ہے تو فنڈز میں جو کم سے کم مانگے گا رقم دے دی جائے گی جتنا علاقہ وہ کور کرسکے کرسکیں گے۔

اگر سرکار اس وقت پیسے نہیں دیتی تو پھر ہمیں اس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ ترمیم قانون سے متصادم ہونے کی وجہ سے درخواست گزار ہائیکورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب ہم نے معاملہ سن لیا ہے تو فیصلہ بھی ہم ہی دیں گے۔ بعدازاں عدالت نے فیصلہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں کافی وقت لگایا گیا ہے اور یہ معاملہ 17 مئی 2013ء سے شروع ہوا تھا۔

یونیورسل سروسز فنڈز کے استعمال‘ کنٹرول اور منتقلی بارے دلائل سنے گئے اس دوران تھری جی اور فور جی لائسنس کا آکشن بھی کیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی اے موجود تھے اور انہوں نے تما م تر تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 23 اپریل 2014ء کو آکشن کی گئی جس کے نتیجے میں کھربوں روپے بنتے ہیں۔ 50 فیصد بولی کی رقم کامیاب بولی دہندگان نے جمع کروادی ہے بقیہ 50 فیصد رقم بھی 5 سال میں ادا کردی جائے گی‘ ایشو جس پر بہت وقت صرف کیا گیا وہ یہ کہ رقم ایف سی ایف میں جائے گی یا یو ایس ایف فنڈز میں جائے گی اس حوالے سے سیکشن 33 سی کا جائزہ لیا گیا۔

سیکشن 33 اے‘ 4 سی بارے دلائل سماعت کئے گئے۔ یو ایس ایف ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کے لائسنس کا اجراء کرکے پیسہ حاصل کرتا ہے اور یہ پیسہ وہ خصوصی طور پر غیر ترقیاتی علاقوں میں خرچ کرتا ہی جہاں ٹیلی کمیونیکیشن سروسز دستیاب نہیں ہوتیں۔ عدالت نے یو ایس ایف فنڈز کے حوالے سے سیکشن 33 بی میں کیا کوئی ڈیمانڈ ہے تو اسماعیل نے بتایا کہ پیسہ موجود ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ 43 ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔ الیکشن سے قبل بہت سا پیسہ ادھر سے ادھر کیا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب یو ایس ایف حکومت سے پیسے مانگے گی وہ دے دے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ یو ایس ایف کے پاس اس وقت بھی کافی فنڈز دستیاب ہیں جس سے وہ ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں تاہم اگر کوئی مطالبہ یا ضرورت یو ایس ایف کے تحت پڑتی ہے تو وہ حکومت سے استدعاء کرسکتے ہیں۔

ڈیمانڈ کے مطابق رقم دے دی جائے گی۔ اگر تاہم فریقین جو ہمارے پاس آئے ہیں کوئی ریلیف مانگتے ہیں یا کسی حکم سے متاثر ہوتے ہیں یہ سوال ابھی ہمارے پاس زیر بحث نہیں ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی معاملہ آتا ہے تو ہم آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ معاملے کی نگرانی کرسکتے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہائیکورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون کے آئین سے متصادم ہونے کے معاملے کو عدالت میں لانا چاہتے ہیں۔ 29 جون 2013ء کو پی ٹی اے رولز میں جو ترمیم کی گئی ہے اس کوچیلنج کرنا چاہتے ہیں وہ اگر ایسا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تھری جی اور فور جی کی نیلامی پر ہونے والے تمام تحفظات دور ہوگئے ہیں۔ مستقبل میں بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

متعلقہ عنوان :