ایٹمی پروگرام سمیت ملکی سلامتی کے اہم فیصلے سول قیادت نے کیے،سول ملٹری تعلقات میں مشکلات پر قابو پانے کے لئے ایک فل ٹائم وزیردفاع کی تعیناتی ناگزیر ہے،سینیٹر مشاہد حسین سید،پاکستان کی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر صنعتی اور تجارتی نیٹ ورک موجود ہے ،پارلیمنٹ کے اراکین فوج کی تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے علم اور مہارت پیدا کریں،سینیٹرفرحت اللہ بابر،سینیٹ ڈیفنس کمیٹی کے زیراہتمام ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار دفاعی بجٹ پر پریس بریفنگ

منگل 20 مئی 2014 07:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20مئی۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے افواجِ پاکستان کی ملکی دفاع کیلئے دی جانے والی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں جوسول ملٹری تعلقات میں مشکلات درپیش ہیں ان پر کسی فل ٹائم وزیردفاع کی تعیناتی کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سوموار کو سینیٹ ڈیفنس کمیٹی کے زیراہتمام ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار دفاعی بجٹ پر منعقدہ پریس بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ ڈیفنس کمیٹی نے ہمیشہ خاکی اور مفتی کے درمیان پل کا کردار اداکرنے کیلئے ملکی سلامتی کو درپیش اہم موضوعات پر تقریبات کا انعقاد کرایا ہے اور دفاعی بجٹ پر سوال کرنا صحافی کا حق ہے۔

انہوں نے کہاکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع شفافیت اور معاملات کو کھلا رکھنے پر بھر پور یقین رکھتی ہے اور اس ورکشاپ کا انعقاد اس بات کا مظہر ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی اس بات کا احساس کرتی ہے کہ دفا عی بجٹ اب ایک مقدس گائے یا شجر ممنوعہ نہیں ہے کہ جس پر بات نہیں کی جا سکتی بلکہاس حوالے سے معلومات کا حصول یا معلومات تک رسائی عوام، پارلیمینٹیرینز اور میڈیا کا بنیادی حق ہے ، اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ورکشاپ کا انعقاد عمل میں لایا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم ) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے نیٹو ہیڈ کواٹرز کے دورے کے دوران کو لیٹرل ڈیمیج یا اجتماعی نقصانات کا معاملہ اٹھایا تھا جس پر ان کو بتایا گیا تھا کہ ایسے اجتماعی نقصانات کے ازالے اور متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لئے ایک خصوصی فنڈ موجود ہے تاہم ابھی تک کسی بھی حکومت نے نیٹو سے اس فنڈکے لئے درخواست نہیں کی کہ جس کے استعمال سے متاثرہ خاندانوں اور افراد کی امداد اور بحالی کا کام سر انجام دیا جا سکے۔

انہوں نے جوہری طاقت کے حصول اور ایٹمی دھماکوں میں سول قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سلامتی کو درپیش بیشتراہم فیصلوں میں سول قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد سول قیادت نے رکھی جبکہ غلام اسحقٰ خان، اے جی این قاضی اور آغا شاہی پر مشتمل تین رکنی سول کمیٹی کو نیوکلیئر معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی، ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ بھی سول قیادت نے کیا۔

اس موقع پر اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دفاعی بجٹ کو نیشنل سیکیورٹی سٹریٹیجی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جو کہ ایک پارلیمان کا نہیں بلکہ مسلح افواج کی ہی ایک مصنوعات ہے۔ فرحت اللہ بابر نے واضح کیا کہ پارلیمینٹ کی جانب سے دفاعی بجٹ کی مناسب راہنمائی کے لئے پارلیمینٹیرینز کو اپنی صلاحیتیں ، استعداد کار کو بہتر بناتے ہوئے معیاری طرز حکمرانی کی مثال پیش کرنا ہو گی۔

قبل ازیں پریس بریفنگ کے دوران ایڈیشنل ڈیفنس سیکرٹری ایئروائس مارشل ارشد قدوس جو کہ دفاعی بجٹ کے حوالے سے ذمہ داریاں رکھتے ہیں نے دفاعی بجٹ کے حوالے شرکاء کو ایک تفصیلی بریفنگ دی کہ دفاعی بجٹ کیسے بنایا جاتا ہے اور وزارت دفاع کے ماتحت کن اداروں کو جاتا ہے۔صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ایڈیشنل ڈیفنس سیکرٹری ایئروائس مارشل ارشد قدوس نے کہا کہ ملک کے مدافتی اثاثہ جات کو محفوظ رکھنے کے لئے اخراجات دفاعی بجٹ میں شامل نہیں ہیں،مسلح افواج کم بجٹ میں لڑاکا ہوائی طیارے، بحری جہاز اور آبدوزیں خریدنے سے قاصر ہیں کیونکہ دفاعی بجٹ سے ملک کی دفاعی تنصیبات کی صرف مرمت اور بحالی کے امور سر انجام دئیے جا سکتے ہیں ، انہوں نے مسلح افواج کے مقابلے کی صلاحیت میں بہتری کے لئے خریدے جانے والے اثاثہ جات کو دانتوں اور مسلح افواج کی دفاعی تنصیبات اور انفراسٹرکچر پر کئے جانے والے اخراجات کو دم سے تشبیہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ رواں برس مسلح افواج کی صرف دم ہی لمبی ہوئی ہے جبکہ اس کے دانتوں کو چھوٹا کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس دانتوں کو 21 فیصد چھوٹا کیا گیا ہے جبکہ دُم کی لمبائی میں 79فیصد اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی ری ایمبر سمینٹس اور اقوام متحدہ امن مشن کے حوالے سے افواج کا حصہ بھی دفاعی بجٹ میں شامل کیا جانا چاہئے ۔ ایئروائس مارشل ارشد قدوس کا کہنا تھا کہ فوج دفا عی بجٹ کا 70فیصد حصہ حاصل کرتی ہے جبکہ اس میں سے 63 فیصد تنخواہوں اور الاونسز کی ادئیگیوں میں خرچ ہو جاتا ہے، پاکستان ائر فورس کل بجٹ کا پانچواں حصہ حاصل کرتی ہے اور اس میں سے 41.5 فیصد اپنے فیزیکل اثاثوں پر استعمال کرتی ہے جبکہ پاک بحریہ کے حصہ میں بجٹ کا دسواں حصہ آتا ہے جس میں سے40فیصد وہ پروکیورمینٹس پر استعمال کرتی ہے، پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے مقابلے میں دفاعی بجٹ پر نہایت معمولی رقم خرچ کرتا ہے۔

میڈیا بریفنگ میں مختلف پارلیمانی نمائندوں بشمول سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر صغریٰ امام، سینیٹر سعید غنی، سینیٹر عبدالحسیب خان اور سینیٹر سردار علی خان نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد نے دفاعی بجٹ کی آگاہی کیلئے صحافتی معلوماتی کتابچے کا اجرا ء بھی کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز میں سینیٹ کی ڈیفنس کمیٹی کی جانب سے دفاعی بجٹ کے بارے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر صنعتی اور تجارتی نیٹ ورک موجود ہے اور یہ تمام ادارے سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن نہ تو عوام کو ان کے متعلق معلوم اور نہ ہی پاکستان کو اس کے بارے میں آگاہی ہے۔

انہوں نے پارلیمنٹ کے اراکین سے کہا کہ وہ فوج کی تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے اپنے اندر علم اور مہارت پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کے تجارتی اداروں کے متعلق عوام اور پارلیمان کو تو آگاہی نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے احتسابی طریقہ کار کے دائرے میں بھی نہیں آتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کے لئے جو مراعات اور سبسڈیز مہیا کی گئی ہیں ان کو دیکھا جائے جن میں فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن، بحریہ فاؤنڈیشن، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن، نیشنل لیجسٹک سیل اور دیگر ادارے شامل ہیں اور اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ وہ آزادمعیشت کی ترقی پر کیا منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان سب باتوں کی نگرانی کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ گورننس میں بہتری لائی جائے اور اراکین پارلیمنٹ ان تمام امور پر سوالات پوچھنے کے لئے اپنی استعداد بڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے بیانئے کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے اور اس میں شفافیت اور احتساب کی کمی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان بجائے فلاح و بہبود کے دفاعی بنیادوں پر قائم ایک ریاست بن گئی ہے اور نیشنل سکیورٹی کا بیانیہ اور خطرے کا تناظر صرف اور صرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا ہے۔

اس کی وجہ سے تمام ایشوز چاہے وہ گمشدہ افراد کا معاملہ یا قبائلی علاقوں میں اصلاحات ہو یا وسائل مختص کرنے کی بات ہو، یہ سب سکیورٹی بیانئے کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ یہ بات پوچھنا بھی معیوب ہوگیا ہے کہ کیا پاکستان کو سب سے بڑا خطرا اندرونی طور پر ہے یا بیرونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سویلین لیڈروں نے اگر کوئی متبادل بیانیہ پیش کیا تو اسے فوری طور پر برطرف کر دیا گیا جیسا کہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔

سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنی ضروریات خود طے کرتی ہیں اور یہ توقع کرتی ہیں کہ قومی سلامتی کے ان کے بیانئے کے مطابق بجٹ میں رقم مختص کی جائے۔ اس بات کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ارب روپے سے زیادہ کی رقم فوجیوں کی پنشن کی مد میں سول بجٹ میں رکھی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی بجٹ پر کسی بھی تنقید کو سکیورٹی اداروں کے خلاف سازش نہیں سمجھنا چاہیے۔