بلڈ بینک زندگی کی بجائے موت بانٹنے لگے‘ نشے کے عادی افراد کا خون استعمال ہونیکا انکشاف، بلڈ بیگ کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں ، رپورٹ

پیر 19 مئی 2014 07:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19مئی۔2014ء) بلڈ بینک زندگی کی بجائے موت بانٹنے لگے‘ نشے کے عادی افراد کا خون بھی استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ بلڈ بیگ کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت 1830 بلڈ بینک کام کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلڈ بینک تبادلے یا خون کی تبدیلی کے نظام کے تحت کام کررہے ہیں اور اس دوران 100 سے 1200 روپے تک سروس فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔

پاکستان میں خون کی بوتلوں کی مانگ سالانہ 27 لاکھ ہے لیکن صرف 18 لاکھ بوتلیں جمع ہوپاتی ہیں باقی 9 لاکھ بوتلوں کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دئیے جانے کا رحجان صرف 10 فیصد ہے۔ برطانیہ اور ایران میں یہ شرح 100 فیصد کے قریب ہے۔

(جاری ہے)

برطانیہ میں ہر سال 23 لاکھ بوتلیں مریضوں کو لگائی جاتی ہیں۔

پاکستان میں خون کی کمی کے شکار مریضوں کی تعداد 80 ہزار کے قریب ہے اور ایک مریض کو اوسطاً سالانہ 20 بوتلیں خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں 85 فیصد خاندان خون کی تبدیلی کے نظام کے تحت خون جمع کرواتے ہیں۔ 10 فیصد ڈونرز سے خون ملتا ہے۔ صحتمند خون کی تلاش میں شہری سرگرداں رہتے ہیں۔ پاکستان میں غیرقانونی بلڈ بینک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ خون کا عطیہ دینے والے افراد کے خون میں 6 سے 11 فیصد ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ ہوتے ہیں۔