پا ک امریکہ تجار تی فروغ، سیٹیفا‘ ایکشن پلان پر دستخط ہوگئے، زراعت، پارچہ جات کی صنعت اور دیگر شعبوں میں تجارت بڑھانے پر کام کیا جائے گا،ٹیفا‘ پر کام 10 سال قبل شروع ہوا، لیکن اب یہ فورم متحرک ہوگیا ہے پاکستان WTO کی شقوں پر دستخط کرکے اس سلسلے کا حصہ بنے گا، خرم دستگیر خان

ہفتہ 17 مئی 2014 07:46

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17مئی۔2014ء ) پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت کے فروغ کے حوالے سیٹیفا‘ ایکشن پلان پر دستخط ہوگئے ہیں ، میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیرِ تجارت خرم دستگیر خان اور امریکہ کے تجارت کے نمائندہ خصوصی، مائکل فرومین نے تجارت اور سرمایہ کاری کے ’فریم ورک‘ سے متعلق سمجھوتے (ٹیفا) کے تحت ایک ایکشن پلان پر دستخط کیے، جس میں زراعت، پارچہ جات کی صنعت اور دیگر شعبوں میں تجارت بڑھانے پر کام کیا جائے گا۔

’ دستخط کے بعد میڈیا ‘ سے بات کرتے ہوئے، وزیرِ کامرس نے کہا کہ ’ٹیفا‘ پر کام 10 سال قبل شروع ہوا، لیکن اب یہ فورم متحرک ہوگیا ہے۔بقول اْن کے، ’ہم نے اس ایکشن پلان میں کہا ہے کہ پاکستان WTO کی شقوں پر دستخط کرکے اس سلسلے کا حصہ بنے گا، جس کے ذریعے امریکی حکومت اپنے لیے خریداری کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اس طرح پاکستانی کمپنیاں امریکی حکومت کو اپنا سامان بیچ سکیں گی‘۔

اْنھوں نے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔اْنھوں نے مزید کہا کہ، ’ساتھ ہی ہم نے بات کی ہے کہ پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈی میں رسائی کو کس طرح سے بہتر بنایا جائے، اور یہ کہ پاکستانی خواتیں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا، اس کاوش کا ایک اور اہم حصہ ہے‘۔امریکہ اور پاکستان نے پاکستانی خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ایک یادداشت نامے (ایم او یو) پر بھی دستخط کیے ہیں۔

خرم دستگیر خان نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سیکورٹی ضروریات کے گرد گھومتے رہے ہیں، اور یہ کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی یہ کوشش رہے گی کہ اس تعلق کو ’حقیقی معنوں میں تجارتی اور معاشی تعلق میں بدلا جائے‘۔پاکستان کے لیے امریکی امداد 2010ء کے مقابلے میں اب 4.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر تقریباً 1 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔امریکی تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل سے وابستہ شجاع نواز کہتے ہیں کہ اچھی بات ہے کہ پاکستان تجارت کے ذریعے اس کمی کو پورا کرے۔

لیکن، یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔اْن کے الفاظ میں: ’امریکہ میں اس وقت وہ تگڑی حکومت نہیں ہے، نہ میں وہ لیڈرشپ دیکھ رہا ہوں۔ نہ وائٹ ہاوس میں نہ کسی اور ادارے میں جو کہ ایسے مسائل کو کانگریس کے سامنے پیش کرے، اور اس کے لیے، جدوجہد کرے۔ جب تک وہ نہیں ہوگی، میں سمجھتا ہوں پاکستان کو خود یہ کام کرنا پڑے گا۔‘مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے ملک میں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے امریکہ کے اراکینِ کانگریس اور سینیٹ کو یہ پتہ چلے کہ پاکستان اپنے معاملات درست کرنے کے لیے سنجیدہ ہے

متعلقہ عنوان :