جب تک اسٹیبلشمنٹ کا موڈ نہ بنے کسی بھی قسم کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ،مولانا فضل الرحمن،دھاندلی کا شور مچانے والوں کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے اصل ذمہ داران کون ہیں ، معیشت کی بہتری کے مختلف اشارات مل رہے ہیں مگر اصل بہتری جب پتہ چلے گی جب اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے ، پریس کانفرنس

جمعہ 16 مئی 2014 07:35

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مئی۔2014ء) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ کا موڈ نہ بنے کسی بھی قسم کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ، دھاندلی کا شور مچانے والوں کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے اصل ذمہ داران کون ہیں یہ نہیں کہ جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں شور نہیں ہوا ، معیشت کی بہتری کے مختلف اشارات مل رہے ہیں مگر اصل بہتری جب پتہ چلے گی جب اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے ، جامعیہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نہ ہمیں کسی طرف سے اشارے ملے ہیں نہ کسی کی ہدایت ہم اپنے فیصلے خود کریت ہیں ۔

حق نمک اور حق چمک کی بات کرنا مناسب نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں اکثریت کی بنیاد پر بنتی ہیں مگر چلتی نہیں حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ مخالفین اٹھاتے ہیں نواز حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے کارکردگی عوام کے سامنے ہے اس دوران حکومت کو بہت سے بحرانوں کا بھی سامنا رہا جن میں اداروں کا آپس میں ٹکراؤ بھی شامل ہے ۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سب کو ساتھ لیکر چلنا آسان بات نیں کوئی بھی نظریاتی قوت یکسر کی فقیر نہیں معاملات کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ۔

انہوں نے کہا کہ بہتر معیشت کیلئے ملک میں امن کا قیام پہلی ترجیح ہونی چاہیے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات سے قبل آل پارٹیز کانفرنس کی تھی جس میں آرمی چیف سمیت تمام جماعتوں کی قیادت بھی شریک ہوئی مگر نتیجہ کیا نکلا ؟ ادارے زبانی حد تک نہ کہیں بلکہ عمل بھی ہونا چاہیے جب تک اسٹیبلشمنٹ کا موڈ نہیں بنے گا کوئی مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا اخلاق تو تحفظ پاکستان آرڈیننس اور قومی سلامتی پالیسی پر موجود ہے پارلیمنٹ سے اس طرح بل پاس کرائے جاتے ہی جیسے بھارت میں کالا قانون کا بل پاس ہوا مگر یہاں ایسا نہیں ہونا چاہیے یہ محسوس ہو اور لوگ بھی کہیں کہ پارلیمنٹ نے آمرانہ قانون پاس کیا تھا ۔پرویز مشرف کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے مشرف کو باہر بھجوانا ہے جب بھجوانا ہوگا تو وہ چلے جائینگے ہم جیسے کمزور لوگوں سے ایسا کیوں پوچھتے ہیں ۔

طاہر القادری کی حالیہ ریلیوں کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ جو لوگ جمہوری راستوں سے مایوس ہوں وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کوئی بندوق کی نوک پر اور کوئی سوات میں شریعت کی بات کرکے اگر ملک میں پارلیمنٹ اپنا صحیح کردار اور کرتے تو پھر ایسے ریلیوں اور احتجاج کی ضرورت پیش نہ ہوئے ملک میں چالیس پہلے اسلامی قانونی پارلیمنٹ میں موجود ہے مگر اسے منظوری ہی نہیں کیا جارہا ۔

انہوں نے کہا کہ اس حد تک یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارا ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم سڑکوں پر آجائیں ہمیں پارلیمنٹ کے اندر رہ کر جدوجہد کرتی ہے اگر سڑکوں پر آئے تو آئینی ڈھانچہ نہیں رہے گا الطاف حسین کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے ملک میں رہنا چاہیے تھا طویل عرصہ گزر گیا اب پاسپورٹ کی بات کی جارہی ہے جو کہ قانونی معاملہ ہے قوم جل رہی ہے مری رہی ہے اور وہ لندن میں بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کا بجٹ موجودہ حکومت نے صرف پاس کیا تھا اب یہ پہلا بجٹ آئے گا تو پتہ چلے گا ہم نے ہمیشہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہا ہے ۔

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :