مالاکنڈ سے 35لاپتہ افراد کیس کی سماعت،کیا فوجی افسران کے خلاف مقدمہ چل سکتا ہے؟سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے 24 گھنٹوں میں وضاحت اورایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ سے معاونت طلب کرلی،آرمی نے خود حاکم اور ڈی سی مالاکنڈ کو محکوم سمجھ کر حکم جاری کیا جس پر ڈی سی نے اپنا ذہن استعمال کئے بغیر مقدمہ آرمی عدالت کوبھجوا دیا، جسٹس جواد ایس خواجہ،جج ہوں یا وکیل ہم سب کی ذمہ داری آئین و قانون کی عملداری ہے،ریمارکس

جمعرات 15 مئی 2014 07:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15مئی۔2014ء)سپریم کورٹ نے مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں اٹارنی جنرل پاکستان سے 24 گھنٹوں میں وضاحت طلب کی ہے کہ فوجی افسران کے خلاف مقدمہ چل سکتا ہے یا نہیں؟۔ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ سے بھی عدالت نے معاونت طلب کی ہے جبکہ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آرمی نے خود حاکم اور ڈی سی مالاکنڈ کو محکوم سمجھ کر حکم جاری کیا جس پر ڈی سی نے اپنا ذہن استعمال کئے بغیر مقدمہ آرمی عدالت کوبھجوا دیا ۔

عابدہ ملک کیس میں کہاگیا تھا کہ مقدمہ درج نہیں ہوسکتا۔بعد ازاں مقدمہ درج کیا گیا۔جج ہوں یا وکیل ہم سب کی ذمہ داری آئین و قانون کی عملداری ہے۔آرمی افسران کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں؟اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد اس پر فیصلہ دیں گے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ۔ اس دوران اے جی کے پی کے اور دیگرحکام پیش ہوئے ۔ایک لاپتہ شخص کے بھائی محبت شاہ کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو اس دوران کرنل(ر) انعام الرحیم عدالت نے اے جی خیبر پختونخوا سے پوچھا کہ اب تک کیس میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ اس پر اے جی کے پی کے نے بتایا کہ ہم نے ایک رپورٹ پیش کی تھی ۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ ایک کمیشن ختم کر کے آپ نے ایک اور کمیشن مقرر کر دیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے پتہ کرنا تھا کہ آگے کیا ہوا؟ پرچہ درج ہونے کے بعد کے حالات بتائیں۔اے جی کے پی کے نے بتایا کہ 28 اپریل2014 کو تفصیلی رپورٹ جمع کروائی تھی جس کا جائزہ لے لیں۔ہم نے اس میں سب کچھ بتلا دیا ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سات افراد جو آپ نے پیش کئے تھے ،ان کاکیا بنا؟ اس پر عدالت کو بتایاگیا کہ یہ پہلے سے ہی رہا لوگ ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اپنی رپورٹ کا خلاصہ ہی بتلا دیں۔اے جی نے بتایا کہ 27 مارچ2014 کو آرمی کی طرف سے استدعا کی گئی تھی کہ یہ ہمارا بندہ ہے اس لئے ہم اس کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کریں گے۔ ڈی سی او مالاکنڈ نے اسی روز آرڈر پاس کرتے ہوئے نائب صوبیدار کیس فائل آرمی کے حوالے کر دی ۔اب یہ معاملہ آرمی کے پاس ہے ۔عدالت نے لطیف یوسفزئی سے کہا کہ آپ 8 بجے صبح ہی رپورٹ دے دیا کریں تا کہ معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

27 مارچ2014 کو کیا آرڈر کئے گئے ۔اے جی لطیف یوسفزئی نے بتایا کہ ڈی سی او مالاکنڈ نے نائب صوبیدار امان اللہ کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلنے کی وجہ سے معاملہ آرمی کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔خواجہ آصف کی درخواست ،ایف آئی آر کی کاپی سمیت دو ضمنی بھی آرمی کے حوالے کر دی گئیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو کوئی حکم نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس کی کوئی وجوہات نہیں بتائیں ۔

اس کیس میں ڈی سی او نے سمجھ لیا ہے کہ وہ آرمی کے ماتحت ہیں۔ڈپٹی اٹارنی جنرل وقاص ڈار نے عدالت کو بتایا کہ حراستی مرکز کا تمام تر ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں یک رکنی کمیشن کہاں سے آگیا۔آرمی کے تحت ٹرائل کا جائزہ لیں گے۔ڈی سی او مالاکنڈ کا حکم آئینی نہیں لگتا۔ڈی سی او نے اپنا ذہن بھی استعمال نہیں کیا ۔

اے جی کے پی کے نے عدالت کو مزید تفصیلات بتلاتے ہوئے کہا کہ نائب صوبیدار امان اللہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ آرمی نے خود کو حاکم قرار دیا اور ڈی سی کو محکوم سمجھا اور حکم جاری کر دیا ۔اے جی نے بتایا کہ ڈی سی او مالاکنڈ نے بتایا ہے کہ ان کو باقاعدہ طور پر آرمی حکام کی جانب سے درخواست بھجوائی گئی تھی کہ ہم امان اللہ کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کرانا چاہتے ہیں ۔

ریکارڈ اور بندہ ہمارے حوالے کیا جائے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سول عدلیہ کو فوقیت حاصل ہے ۔کریمنل کورٹ قانون کے تابع ہو کر فیصلہ کرے گی تاہم آرمی حکام اس معاملے میں اپنے صوابدیدی اختیار کو کافی سمجھتے ہیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ مقدمات کو مناسب طریقے سے سول کورٹ نے سننا تھا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہمیں کہا گیاکہ عابدہ ملک کیس میں ایشو تھا کہ کچھ ادارے کہتے تھے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر ہی نہیں ہو سکتی۔

سماعت تفصیلی طور پر ہوئی تھی اس کے بعد یہ سماعت ملتوی ہوئی ۔بعد ازاں اس معاملے کودوبارہ نہیں اٹھایاگیا۔ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا مقدمہ درج ہو سکتا ہے ۔ایشو بنے گا تو آپ کو سن لیں گے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے ایکشن لیا کہ یہ درست دائر ہوئی ہے یا نہیں۔

ہم سب چاہے جج ہیں یا وکیل،ہم سب کا مشترکہ مقصد آئین کی عملداری ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ مقدمہ درج نہیں ہو سکتاتو ہم اس کا جائزہ لیں گے ۔دوسرامرحلہ یہ ہوگا کہ آیا مقدمے کے بعد عام عدلیہ اس کیس کی سماعت کرے گی یا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوگا؟۔خصوصی اختیار آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہے ۔انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔حاکم اور محکوم کا برتاؤ نہیں ہو سکتا ۔ان مسائل کا حل نکالنا ہے۔1956 ء میں ان کو حل نہیں کیا گیا تو ضروری نہیں کہ اب بھی حل نہ ہوں۔ اٹارنی جنرل کو بلا لیں ہم ان کو سن کر فیصلہ کر دیں گے۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اپنے دلائل کی فارمولیشن بنا کر عدالت کی معاونت کریں۔مزید سماعت آج جمعرات کو ہوگی۔

متعلقہ عنوان :