قومی اسمبلی میں اپوزیشن و اتحادی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت نے تحفظ پاکستان آرڈیننس 2014ء میں120 دن کی توسیع کثرت رائے سے کر لی،متحدہ اپوزیشن کا احتجاج ،کالا قانون نا منظور کے نعرے۔ایوان سے واک آؤٹ، تحفظ پاکستان بل کالا قانون ہے جس سے نہ صرف آئین بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے،اکثریت کی بنیاد پر ایوان کی کارروائی کو بلڈوز کر کے بل پاس کرایا گیا مگر سینیٹ میں حکومت کو سبکی ہوئی ، خورشید شاہ،عبد الرشید گوڈیل ،شاہ محمود ،نعیمہ کشور اور انجینئر طارق اللہ کا اظہار خیال

جمعرات 15 مئی 2014 07:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15مئی۔2014ء)قومی اسمبلی میں اپوزیشن و اتحادی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت نے تحفظ پاکستان آرڈیننس 2014ء میں120 دن کی توسیع کثرت رائے سے حاصل کر لی۔متحدہ اپوزیشن کا احتجاج ،کالا قانون نا منظور کے نعرے۔ایوان سے واک آؤٹ، تحفظ پاکستان بل کالا قانون ہے جس سے نہ صرف آئین پاکستان بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔

حکومت کی اتحادی جماعت بھی اس بل کی مخالفت کررہی ہے ۔اکثریت کی بنیاد پر ایوان کی کارروائی کو بلڈوز کر کے بل پاس کرایا گیا مگر سینیٹ میں حکومت کو سبکی ہوئی ۔اپوزیشن سید خورشید شاہ،عبد الرشید گوڈیل ،شاہ محمود قریشی اور انجینئر طارق اللہ کا اظہار خیال۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن نعیمہ کشور نے کہا کہ اصولی حریف ہیں ۔

(جاری ہے)

تحفظ پاکستان بل کی وجہ سے وزارتوں کو ٹھکرا دیا ۔

آرڈیننس فیکٹری کو بند ہونا چاہیے جبکہ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین و قانون اور انسانی حقوق کے منافی کوئی بھی قانون منظور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔تحفظ پاکستان بل داخلی سلامتی کے لئے ضروری ہے یہ نیا بل نہیں۔پہلے والا ہے صرف 120 دن کی توسیع چاہتے ہیں۔بدھ کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار خان کی عدم موجودگی میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان آرڈیننس 2012ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل89 کی شق(2) کے پیرا(الف) کے ذیلی پیمرا(دوئم) کے بعد شرطیہ کے تحت 22 مئی201 سے مزید120 دن کی توسیع کی اجازت کی تحریک پیش کی جس پر اپوزیشن نے اعتراض کیا جس پر زاہد حامد نے وضاحت پیش کی کہ تحفظ پاکستان بل کے حوالے سے ایم کیو ایم کے کرنل(ر) طاہر حسین مشہدی ،جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبد الغفور حیدری ،تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر عارف سے معمول کی تجاویز موصول ہوئی ہیں جبکہ سینیٹر رضا ربانی اور اعتزاز احسن نے بل پرجلد ترامیم دینے کا کہا ہے ۔

معاملے پر افہام و تفہیم چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاملے پر اتفاق رائے سے قانون سازی کرائی جائے مگر مذکورہ بالا آرڈیننس 21 مئی کو ختم ہو رہا ہے ۔اس میں توسیع کے لئے120 دن کی تحریک منظور کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ قومی معاملات پر تمام سیاسی قیادت سے مشاورت کی جائے گی ۔آئین و بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون سازی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن ملک کے حالات کے باعث تحفظ پاکستان بل ضروری ہے ۔

اس لئے اس معاملے پر اپوزیشن سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، جس پرتحریک انصاف کے رکن شاہ محمود قریشی نے کہا کہ داخلی صورت حال سے سب واقف ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ تحفظ پاکستان بل جیسا بھی آنا چاہیے مگر ہم چاہتے ہیں ملک کی سالمیت ضروری ہے لیکن قوم کے بنیادی حقوق بھی سامنے رکھنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بل پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ جمعیت علماء اسلام(ف) کو بھی تحفظات ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جس قائمہ کمیٹی میں اپنے تحفظات رکھے تھے اور اختلافی نوٹ بھی دیا اور بل کو ایوان میں پیش ہونے پر بھی اپنی آرادیں ۔انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ معاملے پر افہام وتفہیم کا مظاہرہ کیا جائے اور جلد بازی نہ کی جائے لیکن اس وقت ایوان میں حالات خراب ہوئے کیونکہ یہ بل اکثریت کے بل بوتے پر بلڈوز کرانے کی جسارت کی ۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی یہ بل حکومت نے سینٹ سے پاس کرانا چاہا تو پھر سینیٹ میں بھی حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور قانون سازی نہ ہو سکی ۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر مضامین ،ورکشاپس ہوئیں اور بعد ازاں وزیر اعظم نواز شریف نے وضاحت کر دی کہ اس معاملے پر ایک کمیٹی بنائی جائے گی اور اتفاق رائے قائم کیا جائے گا مگر پھر حکومت120 دن کی توسیع چاہتی ہے ۔برائے مہربانی اس بل کو واپس لے لیں اور اتفاق رائے سے ایسا قانون لیکر آئیں جو آئین پاکستان کے مطابق ہو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔

ایم کیو ایم کے عبد الرشید گوڈیل نے کہا کہ قانون سازی کا ادارہ پارلیمنٹ موجود ہے مگر افسوس کیوں آرڈیننس لایا جارہا ہے کیا مشکلات ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک جانب سے تجاویز مانگی گئی مگر ہماری تجاویز کو مسترد کر دیا گیا۔ ایک جانب تحفظ پاکستان بل کی بات ہو رہی ہے اور دوسری جانب طالبان کو بچھڑے ہوئے بھائی قرار دیکر مذاکرات ہو رہے ہیں ۔

تحفظ پاکستان قانون کا اطلاق صرف کراچی میں ہو رہا ہے اور روز لاشیں اٹھ رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اتنے لامحدود اختیارات نہ دیئے جائیں جس سے لوگوں کے گھر جلیں ورنہ کل دوسروں کے گھر بھی جلیں گے۔ اس آرڈیننس کی توسیع نہ کی جائے یہ کالا قانون ہے ۔کسی کو پاکستانی قوم کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔عوامی مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر شیخ رشید احمد نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات خوش آئند اقدام تھا مگر اس کا جنازہ نکل گیا حالانہ اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں نے حکومت کو ویٹو پاور دی تھی ۔

آرڈیننس سے قوم کا وقت برباد نہ کیا جائے ۔قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے لئے اتفاق رائے ضروری ہے ۔گزشتہ دور حکومت میں90 فیصد بل اتفاق رائے سے پاس ہوئے اور پیپلز پارٹی اس بل کو انسانی حقوق کے خلاف سمجھتی ہے ۔جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن نعیمہ کشور اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آرڈیننس کی اس فیکٹری کو بند ہونا چاہیے ۔

آئین آرڈیننس کی اجازت ضرور دیتا ہے۔مگر اب اس روایت کو ختم ہونا چاہیے ۔ اس کی وجہ سے ہی جمعیت وزارتیں نہیں لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ قرار داد سے پہلے قائمہ کمیٹی کی سفارشات کا انتظار کیا جائے ۔جماعت اسلامی کے رکن صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ نے کہا کہ یہ بل متنازعہ ہے اس کی تمام جماعتوں نے مخالفت کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم درخواست کرتے ہیں اس کو ختم کیا جائے۔

اس بل کی وجہ سے بونیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے ۔اس آرڈیننس کی وجہ سے بے گناہوں کو مشکلات ہیں۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہمارا موقف حکومت کے سامنے آگیا ہے اس لئے اس سے واک آؤٹ کرتے ہیں جس پر اپوزیشن اراکین نا منظور نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ یہ کوئی نیا آرڈیننس نہیں ہے ۔

کوئی ایسا بل منظور نہیں کریں گے جو آئین اور انسانی حقوق سے منافی ہو۔بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے 22 مئی سے آرڈیننس کی میعاد میں 120دن کی توسیع کی قرار داد کی منظوری دیدی۔واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے واک آؤٹ کی وجہ سے کسی نے قرار داد کی مخالفت نہیں کی اور قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔