سینیٹ خزانہ کمیٹی کاغیر آئینی و ایف بی آر کے اپنے جاری شدہ ایس آر اوز پر شدید تحفظات کا اظہار، آیندہ پارلیمنٹ ، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر کوئی بھی ایس او آر جاری کرنے سے روک دیا، وزیر اعظم کے پیکج کی تفصیلات بھی طلب

بدھ 14 مئی 2014 08:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مئی۔2014ء)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بعض آئینی ایس آر اوز کے ساتھ ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی اپنی جانب سے جاری شدہ اایس آر اوز پر سخت ترین تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایف بی آر کو آئندہ کسی قسم کا ایس آر او خود سے جاری کرنے سے روک دیا ہے ، کمیٹی نے ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی بھی ایس او آر جاری کرنے سے پہلے پارلیمنٹ یا وفاقی کابینہ کو اعتماد میں لیا جائے،قائمہ کمیٹی نے وزیر اعظم کے پیکج کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کے لئے غلطیوں سے پاک اور موثر طریقہ کار پیش کرنے کے سفارش کر دی،رکن کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والاکا کہنا تھا کہ وصولیوں کے بلند بالا حکومتی دعووں اور اعداد و شمار میں بار بار تبدیلیوں کے باوجود اس مدمیں شارٹ فال 200ارب روپے سے بھی تجاوز کر سکتا ہے،عالمی مالیاتی فنڈکے مطابق400ارب روپے مختلف آیئنی طورپر تحفظ شدہ و غیر آیئنی ایس آر اوز کی مد میں جا رہے ہیں، قائمہ کمیٹی نے سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے اتفاق کرتے ہوئے دو سو ارب روپے کے شارٹ فال سے زائد فرق آنے کی توقعات ظاہر کین اور اور اس کا جائزہ لینے کے لئے سینیٹر عثمان سیف اللہ اور سیدہ صغریٰ امام کی ذمہ داری سونپ دی۔

(جاری ہے)

منگل کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ، شماریات،معاشی امورو نجکاری کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر ز الیاس احمد بلور، عثمان سیف اللہ خان ، سیدہ صغریٰ امام ، کلثوم پروین ، نزہت صادق، انجینئر محمد ہمایوں خان مندوخیل اور سلیم ایچ مانڈوی والا کے علاوہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیوطارق باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کے متعلق معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔قائمہ کمیٹی کو چیئرمین ایف بی آر نے رواں مالی سال میں اکھٹی ہونے والی آمدن اور ٹیکس وصولی کے حوالے سے بتایا کہ ڈالر کی قیمت اور ایمپورٹ میں کمی کی وجہ سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا ابھی رواں مالی سال کے دو ماہ باقی ہیں مزید وصولیاں ہو جائیگی اور تقریبا 70 ارب روپے کا شارٹ فال آئے گا، ہدف 2345 ارب روپے اکٹھا کرنے کا تھا جبکہ پہلے نو ماہ کے دوران 1575 ارب روپے اکھٹے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے اور اگلے سال مزید ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے گا، اس پر رکن کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والاکا کہنا تھا کہ وصولیوں کے بلند بالا حکومتی دعووں اور اعداد و شمار میں بار بار تبدیلیوں کے باوجود اس مدمیں شارٹ فال 200ارب روپے سے بھی تجاوز کر سکتاہے اس حوالے سے ایف بھی آر کے پیش کردہ اعداد و شمار غلط ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈکے مطابق400ارب روپے مختلف آیئنی طورپر تحفظ شدہ و غیر آیئنی ایس آر اوز کی مد میں جا رہے ہیں جن میں سے کسٹمز کی مد میں 135 ارب، سلیز ٹیلکس کی مد میں 245 ارب اور انکم تیکس کی مد میں 92-93ارب روپے شامل ہی۔

سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھاکہ ایس آر اوز میں بھی جہاں کچھ کو آیئنی تحفظ حاصل ہے وہاں کافی ایس آر اوز غیر آیئنی ہین جن میں سے چند ایف بی آر نے خود سے جاری کئے ہیں۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے ان کے دعوے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ فرق دو سو ارب روپے سے زیادہ کا ہو گا اور اس کا جائزہ لینے کے لئے سینیٹر عثمان سیف اللہ اور سیدہ صغریٰ امام کی ذمہ داری سونپ دی ۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ محکمے نے ریفنڈ کی مد میں 89.3 ارب روپے ادا کیے ہیں اور پچھلے چھ ماہ کے دوران 20 ہزار ریفنڈ کے کیسسز کلیئر کیے ہیں جن کی مالیت ایک بلین روپے تھی۔رکن کمیٹی سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہاکہ آئی ایم ایف نے حکومت سے جو معاہدہ کیا ہے اُس کے مطابق 32 لاکھ افراد ٹیکس دینے کے قابل ہیں اور وہ افراد 2008 سے ٹیکس دینے کے اہل تھے آئی ایم ایف کے پاس اُن افراد کی لسٹ ہے اور وہ لسٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہمارے علم میں ایسی کوئی لسٹ موجود نہیں ہے البتہ یہ محکمہ نادرا کے ساتھ مل کر ایک ایکشن ایبل ڈیٹا تیار کر رہا ہے جس میں بنک اکاؤنٹس ، بیرون ممالک سفر کرنے والے ، شہر میں جائیداد رکھنے والے ،دو لاکھ سے زائد ٹیوشن فیس ادا کرنیوالے ، بڑی گاڑیاں اور بڑے گھروں کے مالکان کو شامل کیا جا رہا ہے ٹیکس کے دھارے میں لوگوں کو لانے کے لئے 90 ہزار نوٹسسز جاری کیے گے ہیں اور 8600 افراد خود ٹیکس ادا کر رہے ہیں جس پر رکن کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ صرف نوٹس جاری کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم نے ٹیکس ریفامز بل متعارف کرایا تھا اور موجودہ حکومت نے اُس کی مخالفت کی تھی اور وہ پارلیمنٹ ہاؤس میں منظوری کے لئے ایک سال سے پڑا ہو ا ہے قائمہ کمیٹی نے اُسے دوبارہ منظوری کیلئے پیش کرنے کے سفارش کر دی ۔

ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ موجودہ حکومت نے کسی ایمنسٹی سکیم کا اعلان نہیں کیا اور انکم ٹیکس پالیسی کے حوالے سے وفاقی حکومت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے چودہ ایس آر اوز جاری کیے تھے جس پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا اور کلثوم پروین ایمنسٹی سکیم اور حکومت کے ٹیکس سے استثنیٰ کے اعلان اور اس کے آمدن پر اثرات کا جائزہ لیں گے ۔

قائمہ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کیآئندہ ایف بی آر خود سے کوئی اایس آر او جاری نہیں کرے گی اور کوئی بھی ایس او آر جاری کرنے سے پہلے پارلیمنٹ یا وفاقی کابینہ کو اعتماد میں لے۔رکن کمیٹی الیاس احمد بلور نے کہاکہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کہا گیا تھا کہ نئی صنعت لگانیوالے سے دس سال تک ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا اس پالیسی کی وجہ سے پرانے صنعتکار تباہ ہو جائیں گے جس پر طارق باجوہ نے کہا کہ صرف آمدن کے ذرائع نہیں پوچھے جائیں گے باقی صنعتکار سلیز ٹیکس اور آمدن ٹیکس ادا کر ے گا ۔

قائمہ کمیٹی نے وزیر اعظم کے پیکج کی تفصیلات بھی طلب کرلیں ۔کسٹم ڈیوٹی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ جولائی 2013 سے مارچ 2014 تک 169 ارب روپے اکھٹے کیے گے جبکہ گزشتہ سال کل 164 ارب روپے اکھٹے کیے گے تھے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے 1402 بلین روپے ان لینڈ ٹیکس کی مد میں مارچ تک اکھٹے کر لئے ہیں جبکہ پچھلے سال یہ 1180 ارب روپے تھے ۔جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح پچھلے سال 8.5 فیصد تھی جبکہ موجودہ سال 9 فیصد ہونے کی توقع ہے ۔

رکن کمیٹی سیدہ صغریٰ امام نے کہا کہ نیٹو افواج افغانستان سے اپنا سامان نکال رہی ہے متعلقہ ادارے آئندہ اجلاس میں اس بارے تفصیلی آگا ہ کریں سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہدرآمدات و برآمدات کی صورتحال بہتر کر کے عام آدمی کی حالت میں بہتری لائے جا سکے موثر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا آلو سمگل ہو گیا اور غیر معیاری آلو کھا رہے ہیں ۔

طارق باجوہ نے کہا کہ ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں اچھی شہرت اور فرض شناس افسروں کو بڑی پوزیشنز پر تعینات کر دیا گیا ہے اور پرفارمنس منیجمنٹ یونٹ بنایا جا رہا ہے تاکہ افسران اور ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے ۔قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کے لئے موثر طریقہ کار پیش کرنے کے سفارش کر دی جس میں غلطیوں کی گنجائش کم سے کم ہو ۔

متعلقہ عنوان :