آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیس، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے عام لوگوں تک مناسب نرخوں پر آٹے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی بارے منصوبہ طلب، وفاق اور صوبائی حکومتیں آرٹیکل 9 ،14 اور38 پر عملدرآمد یقینی نہ بنائیں تو آئینی و قانونی طور پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹس جنرل سے جواب طلب، کیا حکومتوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ چاہے عوام بھوکوں مر جائے یا بھلے گندم چوہے کھاجائیں مگر غریب عوام کو سستے داموں آٹا نہیں دینا،جسٹس جواد ایس خواجہ،ہم پانی ”کچھ“ رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آرہا ہے ،حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی اور جب ہم کوئی احکامات جاری کرتے ہیں تو کہا جاتاہے کہ عدالت اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے،ریمارکس، شہریوں کی زندگی کا تحفظ اور بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی، جسٹس گلزار

بدھ 14 مئی 2014 08:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مئی۔2014ء)سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی جانب سے آٹے کی قیمتوں میں اضافے بارے دی گئی درخواست پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے عام لوگوں تک مناسب نرخوں پر آٹے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی بارے منصوبہ طلب کیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے آئینی و قانونی وضاحت طلب کرتے ہوئے جواب مانگا ہے کہ اگر وفاق اور صوبائی حکومتیں آرٹیکل 9 ،14 اور38 پر عملدرآمد کو یقینی نہ بنائیں تو پھر اس کے آئینی و قانونی طور پر کیا اثرات اور نتائج مرتب ہو سکتے ہیں؟ اور عدالت کس طرح کے احکامات جاری کر سکتی ہے؟۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ چاہے عوام بھوکوں مر جائے یا بھلے گندم چوہے کھاجائیں مگر غریب عوام کو سستے داموں آٹے کی فراہمی نہیں کرنی ۔

(جاری ہے)

ہم پانی ”کچھ“ رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آرہا ہے ۔ایک خاتون نے غریب سے تنگ آ کر 3 بچوں کو نہر میں پھینک دیا ۔سبزی اور پیاز عوام کو نہیں ملتے تو کم از کم آٹا تو دے دیں۔

یہ سلسلہ مزید نہیں چلنے دے سکتے ۔حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی اور جب ہم کوئی احکامات جاری کرتے ہیں تو کہا جاتاہے کہ عدالت اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ شہریوں کی زندگی کا تحفظ اور بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی ۔کل راولپنڈی کے جلسے میں کہاگیا ہے کہ لوگوں کو ضروریات زندگی مفت فراہم کی جائیں گی اگر وہ کر سکتے ہیں تو حکومت کیوں نہیں۔

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔اس دوران وفاقی اور صوبائی لاء افسران پیش ہوئے ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت20 مئی تک ملتوی کر دی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے بتایا کہ بین الاقوامی اور قومی معیار بنائے گئے ہیں ۔ایک انسان کے رہنے کے لئے جو ضروریات ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے جو کچھ بتایا ہے اس سے تو خوراک کی ضروریات پوری ہوں گی ۔

آرٹیکل 9 اور آرٹیکل14 پڑھ لیں۔اس میں آپ کو کپڑے اور دیگرضروریات کو بھی پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔عتیق شاہ نے آرٹیکل38 ڈی پڑھ کر سنایا جس میں بنیادی انسانی زندگی کی ضروریات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔بیماری یا کسی اور وجہ سے کوئی مزدوری نہ کر سکے تو اس کو فراہم کرنا تھا ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ جب سے آئین بنا ہے یہ آرٹیکل بنا ہے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو بنیادی حق ہے جس کی کوئی ملازمت نہیں یا بے روز گار ہیں ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ راولپنڈی میں ایک تقریر ہوئی ہے جس میں انہوں نے روٹی ،کپڑا، مکان مفت دینے کی بات کی ہے ۔اس حوالے سے آپ کی ریاست نے کیا اقدامات کئے ہیں ۔خوراک کے لئے حکومت نے کیا کیا ہے ۔عدالت کو بتایا گیا کہ فوڈ سکیورٹی جہاں تک ہماری ذمہ داری ہے ہم پورا کررہے ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت کا کام صرف اعدادو شمار اکٹھا کرنا ہے آٹا پہنچانا نہیں ہے۔ فوڈ سکیورٹی وزارت نے بتایا کہ ضروریات زندگی جہاں تک ہو سکے اس کے مہیا کرنے بارے ہم نے اقدامات کرنا ہوتے ہیں ۔صارفین سال بھر میں کس قدر چیزیں استعمال کرتے ہیں ۔پیداوار کیا ہے ۔چیزیں سرپلس میں ہیں یا کمی ہے ۔اس بارے جائزہ لینا ہمارا کام ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ڈیٹا کی بات کررہے ہیں ۔

ڈاکٹر شکیل نے ہمیں کچھ باتیں بتائی تھیں ہم نے وہ لکھ لی تھیں ۔لوگوں کو دستیاب وسائل کے تحت آٹا مل رہا ہے یا نہیں اس کا جائزہ لینا ہے ۔پیداوار تو اس قدر ہے کہ سب تک یہ خوراک پہنچ جائے ۔یہ نہیں پتہ کہ کتنی گندم چوہے کھا جاتے ہیں ۔سستے بازار بھی موجود ہیں ۔اناج کا ضیاع قابل قبول مقدار سے زائد ہے۔ اناج کا اُگاؤ اگر پورے ملک میں ہے ۔عدالت کو بتایا کہ گیا کہ8 فیصد اناج ضائع ہو جاتا ہے ۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ گندم ،چاول اور دیگر اناج کے سٹور کرنے کے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ۔وزارت نے بتایا کہ 64 فیصد دیہات میں لوگ رہتے ہیں اور اناج اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ۔شہری35 فیصد ہیں ان تک اناج پہنچانا ضروری ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ سرکار ہیں باز پرس بھی آپ سے ہی ہونی ہے۔ تھرپارکر کے ضلع میں گندم نہیں اُگتی،اناج دوسرے علاقوں سے جاتا ہے ۔

وفاقی سیکرٹری کے طور پر آپ کا کیا کردار ہے۔ باقی صوبے بھی اپنی اپنی رپورٹس دیں۔ہم نے ان کا خیال رکھنا ہے ۔آپ کے اعدادو شمار میں تو اناج کی بہتات بتاتے ہیں ۔ قدرت کا کرم ہے کہ زرعی اجناس پاکستان میں پیدا ہوتی ہے اس قدر اگائی جاتی ہیں کہ آبادی پر پورے ہو جائے۔ اناج کی ترسیل دوسرے علاقوں تک ہو رہی ہے یا نہیں ۔تین رکنی کمیٹی بنائی تھی یہ ہمارا کام نہیں تھا پھر بھی ذمہ داری نبھائی ۔

کمیٹی کا جواب تسلی بخش نہیں ملا۔ تربت ،پنجگور اور دیگر علاقوں میں کیا پوزیشن ہے؟۔آصف توفیق نے بتایا کہ پشتون علاقوں میں جانے کی اجازت ملی ہے مگر بلوچستان میں جانے کی اجازت نہیں ملی ۔امن وامان کی حالت خراب ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ معاملات کے حل کے لئے سبی میں بھی بنچ قائم کر سکتے ہیں ۔راولپنڈی میں اگر1150 روپے کا 20 کلو کا تھیلا مل رہا ہے تو باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا؟۔

آٹا ایران افغانستان سمگل ہو رہا ہے۔اناج سٹور کرنے کا مقصد مسائل کا خاتمہ ہوتا ہے اگر اناج کی فراوانی ہے تو پھر ترسیل میں مشکلات ہوں گی؟ ۔وفاقی سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ وہ مختلف علاقوں میں کام کرتے رہے ہیں ۔انگریز دور میں حکم تھا کہ ایک مخصوص وقت تک بارش نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے تو انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ خوراک اور جانوروں کا چارہ مہیا کریں گے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ تو انگریز کرتے تھے ہم کیا کررہے ہیں۔وفاقی سیکرٹری نے کہا کہ ملک میں خوراک کمی نہیں ہے صرف تقسیم کا مسئلہ ہے ۔یہ معاملہ انتظامی ہے ۔حکومت اس حوالے سے اقدامات کر سکتی ہے ۔ڈپٹی کمشنر کو انگریز دور میں سختی سے یہ حکم تھا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ معاملہ میر پور خاص کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں بھی ضرور ہوں گے۔ ہم یہ مذاق نہیں کررہے ہیں ۔

صوبے میں اس میں دلچسپی لیں۔صوبوں کو ذمہ داریاں جانے کے بعد معاملات میں کچھ پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔تمام صوبے ان اقدامات کے ذمہ دار ہیں ۔فوڈ سکیورٹی موجود ہے یا نہیں ۔وزارت ہونے کے باوجود کیا ہو رہا ہے ۔ٹرکوں کی قطاریں چمن بارڈر کی طرف جاتے دیکھی ہیں ۔ سبزی پیاز وغیرہ اس عوام کے لئے عیاشی ہے ۔کم از کم حکومت لوگوں کو آٹا تو دے ۔ایک خاتون نے غربت سے تنگ آ کر تین بچے نہر میں پھینک دیا ۔

آصف توفیق نے کہا کہ سروے پیش کیا تھا ۔ عدالت نے اس کو معتبر نہیں جانا تھا۔وزیرخزانہ نے ایک پروگرام میں تسلیم کیا ہے کہ فوڈ سکیورٹی ملک میں52 فیصد ہے۔2ڈالر معیار ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ کہنے والے کو شاید اصل حالات کا علم نہ ہو بہت سی چیزوں کی مانیٹرنگ نہیں کی جاتی ۔کسان اپنی اشیاء کی خریداری میں گندم دیتے ہیں ۔ہمیں بتایا جائے کہ ہم اس معاملے کو کیسے حل کریں۔

سیکرٹری فوڈ سیکرٹری نے بتایا کہ 18 کروڑ آبادی کے مسائل ہیں ان کو حل کرنا آسان نہیں ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ 65 سال قبل انگریز کرتا رہا تو آپ کیوں نہیں کر سکتے۔ سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ 35 فیصد اناج جس میں سبزیاں وغیرہ اور دیگر چیزیں ہیں وہ ضائع ہو جاتی ہیں۔8 فیصد گندم ضائع ہوتی ہے ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ حکومتی اداروں میں رابطے کا شدید فقدان ہے ایسا کیوں ہے؟40 فیصد نقصان کا مقصد یہ ہے کہ مال مارکیٹ میں ہی نہیں آتا۔

جس نے گندم پیدا کی اس کو تو کچھ ملتا ہی نہیں۔ اگلی فصل کے لئے اس کے پاس سرمایہ تک نہیں ہوتا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ چاروں صوبوں کو اکٹھا کر کے مشترکہ جواب وفاقی حکومت سے مانگا تھا ۔بنیادی ضروریات کی فراہمی بارے تو بتایا جائے کہ اس میں کیا رکاوٹیں ہیں اور ان کا کیا حل ہے۔سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ گورننس ،سوشل نیٹ ورک اور انتظامی معاملات باقی رہ جاتے ہیں ۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ حکومت نے اپنی ہی پیداوار بارے میں حساب کر دیا ہے کہ جن کو جانا منع ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتی ہیں اور جن کو ضرورت ہے ان کو نہیں ملتی۔ ہمارے لوگوں کو تو غلہ ملے حکومت جان بوجھ کر بھی اناج کی کمی پیدا کر دیتی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رزاق مرزا کہہ رہے ہیں کہ750 روپے 20 کلو گرام آٹا مل رہا ہے جبکہ راولپنڈی میں یہ1150 روپے میں مل رہا ہے ۔

ماضی میں آٹے کی تقسیم کے لئے راشن ڈپو قائم کئے جاتے تھے۔ راشن کارڈز بنتے تھے۔اب تو شناختی کارڈز بن چکے ہیں سب کی تفصیلات سامنے آ سکتی ہے کہ کتنی فیملی اور ضروریات کتنی ہیں۔مارکیٹ کی قیمت اور چیز ہے اور صارفین کے پاس دستیاب قیمت اور چیز ہے۔6000 روپے میں گزارا مشکل ہے۔میرا تو یہی خیال ہے ۔اس میں بھی صرف خوراک شامل ہے۔پتہ نہیں کہ کتنے لوگوں کی تنخواہ9 ہزار روپے ہے۔

آصف توفیق نے کہا کہ 48 فیصد تنخواہ 6 ہزار یا اس سے زائد ہے ۔باقی سب غربت سے بھی نیچے رہ رہے ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ مشکلات ضرور ہیں مگر اس کا کوئی تو حل ہو۔اس سنجیدہ معاملے سے کوئی انکار نہیں کر رہا۔کیا یہ سلسلہ طویل عرصے تک بغیر حل کے چلتا رہے گا۔ذمہ داری تو آئین نے ان پر ڈالی ہے ۔وزارت فوڈ سیکورٹی جواب دے ۔ہم ہر چیز میں ماہر نہیں ہے ان کی ترجیحات اپنی جگہ ہیں ہم باتوں کو سن کر صحیح درست تو قرار دے سکتے ہیں مگر معاشی معاملات کو صرف معاشی ماہر ہی حل کر سکتا ہے۔

ہم تو اس کا حل نہیں دے سکتے۔ عتیق شاہ نے کہا کہ ٓآپ نے رپورٹ دینا تھی کہ یہ معاملہ اس طرح سے حل ہوتا ہے اور یہ معاملہ کب حل ہونا ہے کیا لوگ مر جائیں گے تو معاملہ ہوگا۔سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ سبسڈی کا ہے ۔ارب پتی شخص بھی سبسڈی کھا رہے ہیں ۔یہ بہت بڑا ایشو ہے ۔ٹارگٹ سبسڈی نہیں دی جائے گی ۔مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں پیسوں کا نہ بتائیں اس کو ہم جمعرات تک کے لئے ملتوی کر دیتے ہیں۔

آپ اس کا کوئی حل بتائیں۔ سابق چیف جسٹس نے23 اکتوبر2013 کو نوٹس لیا تھا۔اب آپ کہیں گے کہ عدالت اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے ۔ہمیں صرف 3 لائنوں پر مشتمل جواب بھیجا گیا۔شہری سول کورٹ کے پاس دعوی کیوں نہیں دائر کرتا، سرکار اور صوبوں کو فریق بنائے اور اگلے25 سے30 سال رگڑے کھائے ا ور پھر سپریم کورٹ پہنچے کونسی اسلامی ریاست رہ گئی ہے ۔دجلہ کے کنارے پر ایک کتا بھی بھوک پیاس سے مرے گا تو حضرت عمر نے خود کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔

حکومتی ذمہ داری پوری ہوتی نظر نہیں آرہی باتیں بہت ہو چکی ہیں ،اب عمل کی بات کریں۔چھ ماہ گزر گئے ہم آٹے کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔حکومت اور صوبے بتائیں کون سا اقدام کیا ہے کہ جس پر عملدرآمد کیا گیا ہے ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ 43 سال گزر گئے 1973 ء میں دی گئی آئین پر وویژن پر کوئی عمل نہیں کیا گیا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے ۔

ہمیں ذاتی خیال نہیں ۔سرکاری پالیسی بتائی جائے ۔سبسڈی ہونا یا نہ ہونا ہمیں نہیں پتہ ۔لوگوں کو غلہ اور اناج فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزڈم نجانے واشنگٹن سے آتی ہے یہ کوئی سیاسی کھیل نہیں ہے ۔یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے ۔اسلامی ریاست کے لوگوں کو بنیادی ضروریات نہیں مل پا رہی ہیں ۔آپ جو مرضی کریں مگر لوگوں تک ان کی طاقت خرید کے مطابق آٹا تو فراہم کریں۔

گریڈ20 کے لوگوں کو مسئلہ نہیں ہے ۔گریڈ ایک سے 7 تک کے لوگوں کو بہت مسئلہ ہے۔نادرا سے ڈیٹا حاصل کر سکتے ہیں ۔وزارت کو خود بھی ڈیٹا بنانا پڑے گا۔کم از کم اتنا تو ہمیں پتہ چل سکے کہ کوئی شخص بھوک افلا س سے نہیں مرا۔ سیکرٹری خوراک سکیورٹی کیلئے کہ حکومت سے ہدایات حاصل کرنا پڑے گی ۔وقت دے دیں گے ۔سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل تلاش کریں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عتیق شاہ اور دیگر لاء افسران سے پوچھا کہ اگر آئین و قانون پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اس کے کیا اثرات ہوں گے ۔

پانچ سرکاریں کھڑی ہو کر کہہ رہی ہیں کہ ان سے کچھ نہیں ہو رہا ہے ۔ہم اس معاملے سے ایک سیکنڈ کے لئے پہلی نظر نہیں چرا سکتے۔ بعد ازاں عدالت نے حکمنامہ تحریر کرایا۔وفاقی وزارت فوڈ سکیورٹی اور دیگر صوبائی وزارتیں عدالتی احکامات پر عمل کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے حکمنامہ میں کہا کہ اکتوبر2013 سے اب تک مختلف اوقات میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی ہے کوشش ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وفاقی حکومت اور چار صوبائی حکومتیں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے اقدامات کریں ۔

عوام کو خوراک دی جا سکتی ہے ۔اس معاملے کو حل کے لئے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئی انہیں ان کمیٹیوں نے رپورٹس جمع کرائیں اور سوائے بلوچستان کے سب کا احوال موجود تھا۔آٹے کی دستیاب وسائل کے تحت فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔آٹے کی مختلف علاقوں میں مختلف قیمتیں ہیں ۔یہ حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آرٹیکل 9 ،14 ،38 پر عملدرآمدکو یقینی بنائیں۔

نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سیکرٹری نے بھی اپنی وزارت بارے بتایا ۔انہوں نے بتایا کہ تمام ضروریات زندگی ملک میں واضح مقدار میں موجود ہیں ان کی ترسیل کا مسئلہ ہے۔معاشرے میں بڑی تعداد میں لوگوں تک خوراک نہیں پہنچ پا رہی ہے ۔عدالت چاہتی ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں اور ضروری خوراک آئٹمز کی فراہمی کو مناسب نرخوں کے تحت یقینی بنایا جائے ۔

اب یہ حکومتوں پر ہے کہ وہ اس مسئلے کو محدود وقت میں حل کرے۔صوبوں سے مشاورت کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔مختلف علاقوں کا دورہ کر کے حالات کا جائزہ بھی لیا جائے۔ اور دیکھا جائے کہ کیا مقاصد حاصل ہو رہے ہیں یا نہیں۔عدالت کو بتایا جائے کہ لوگوں کو مناسب نرخوں پر آٹے اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی بارے آئینی ذمہ داریوں پر عملدرآمد کے لئے کتنا وقت لگے گا اور افسران بھی عدالت کی معاونت کریں کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ ہونے اور پانچ حکومتوں کی جانب سے ناکامی پر اس کے آئین و قانونی طور پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے ۔مقدمہ کی سماعت19 مئی کو ہوگی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہم پانی ”کچھ“ رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آرہا ہے ۔ عتیق شاہ سے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے ۔عتیق شاہ نے کہا کہ اس کیس کو20 مئی کے لئے رکھ دیں ۔عدالت نے کہا کہ سینیٹر رفیق رجوانہ کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا تھا ۔

اس وقت بیرون ملک ہیں اور سرکاری وفد کے ساتھ گئے ہیں۔19 مئی کو واپس آئیں گے۔سپریم کورٹ آفس رفیق راجوانہ کو اگلی سماعت کی تاریخ پر آگاہ کرے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لوگ بھوک افلاس سے مررہے ہیں ۔معاملہ ضرور کہیں نہ کہیں پہنچے گا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سرکاری ادارے نام کے لئے نہیں کام کے لئے بنے ہیں وہ کام کریں۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں کاغذی کارروائی نہیں عملی کام چاہیے ۔ہم کام کریں گے تو اللہ مدد کرے گا ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ زندگی کا تحفظ اور خوراک پہنچانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔

متعلقہ عنوان :