ٹیکس وصولی ہدف سے 200ارب ڈالر کم رہے گی،سینٹ خزانہ کمیٹی، 70ارب کا فرق آئے گا، ایف بی آر، کمیٹی کی زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی سفارش،ٹیکس نیٹ میں توسیع کا طریق کار اور وزیراعظم پیکج کی تفصیلات طلب، کوئی بھی ایس او آر جاری کرنے سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس کو اعتماد میں لیاجائے،کمیٹی کی ہدایت، اگلے سال مزید ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے گا،چیئرمین ایف بی آر،نادرا کے ساتھ مل کر بنک اکاؤنٹس ، بیرون ممالک سفر کرنے والے ، شہر میں جائیداد رکھنے والے ،دو لاکھ سے زائد ٹیوشن فیس ادا کرنیوالے ، بڑی گاڑیاں اور بڑے گھروں کے مالکان کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں،کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 14 مئی 2014 08:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مئی۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و شماریات نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ رواں مالی سال ٹیکس وصولی ہدف سے 200ارب ڈالر کم رہے گی جبکہ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ 70ارب کا فرق آئے گا جبکہ کمیٹی نے زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی سفارش کرتے ہوئے اس ضمن میں طریق کار اور وزیراعظم پیکج کی تفصیلات طلب کرلی ہیں اور کہا ہے کہ کوئی بھی ایس او آر جاری کرنے سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس کو اعتماد میں لیاجائے،چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے اور اگلے سال مزید ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے گا،نادرا کے ساتھ مل کر بنک اکاؤنٹس ، بیرون ممالک سفر کرنے والے ، شہر میں جائیداد رکھنے والے ،دو لاکھ سے زائد ٹیوشن فیس ادا کرنیوالے ، بڑی گاڑیاں اور بڑے گھروں کے مالکان کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

خزانہ،معاشی امورو نجکاری کا اجلاس منگل کو چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر ز الیاس احمد بلور، عثمان سیف اللہ خان ، سیدہ صغریٰ امام ، کلثوم پروین ، نزہت صادق، انجینئر محمد ہمایوں خان مندوخیل اور سلیم ایچ مانڈوی والا کے علاوہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیوطارق باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کے متعلق معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔قائمہ کمیٹی کو چیئرمین ایف بی آر نے رواں مالی سال میں اکٹھی ہونے والی آمدن اور ٹیکس وصولی کے حوالے سے بتایا کہ ڈالر کی قیمت اور امپورٹ میں کمی کی وجہ سے مطلوبہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہو سکا ابھی رواں مالی سال کے دو ماہ باقی ہیں مزید وصولیاں ہوں گی اور تقریبا 70 ارب کا فرق آئے گا ،ٹارگٹ 2345 ارب اکٹھا کرنے کا تھا جبکہ پہلے نو ماہ کے دوران 1575 ارب اکٹھے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے اور اگلے سال مزید ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے گا جس پر قائمہ کمیٹی نے کہا کہ فرق 200 ارب سے زیادہ کا ہو گا اور اس کا جائزہ لینے کے لئے سینیٹر عثمان سیف اللہ اور سیدہ صغریٰ امام کو ذمہ داری سونپ دی ۔چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ محکمے نے ریفنڈ کی مد میں 89.3 ارب ادا کیے ہیں اور پچھلے چھ ماہ کے دوران 20 ہزار ریفنڈ کے کیسسز کلیئر کیے ہیں جن کی مالیت ایک ارب روپے تھی۔

رکن کمیٹی سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہاکہ آئی ایم ایف نے حکومت سے جو معاہدہ کیا ہے اُس کے مطابق 32 لاکھ افراد ٹیکس دینے کے قابل ہیں اور وہ افراد 2008 سے ٹیکس دینے کے اہل تھے، آئی ایم ایف کے پاس اُن افراد کی لسٹ ہے اور وہ لسٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہمارے علم میں ایسی کوئی لسٹ موجود نہیں ہے البتہ یہ محکمہ نادرا کے ساتھ مل کر ایک قابل عمل ڈیٹا تیار کر رہا ہے جس میں بنک اکاؤنٹس ، بیرون ممالک سفر کرنے والے ، شہر میں جائیداد رکھنے والے ،دو لاکھ سے زائد ٹیوشن فیس ادا کرنیوالے ، بڑی گاڑیاں اور بڑے گھروں کے مالکان کو شامل کیا جا رہا ہے۔

ٹیکس کے دھارے میں لوگوں کو لانے کے لئے 90 ہزار نوٹسز جاری کیے گئے ہیں اور 8600 افراد خود ٹیکس ادا کر رہے ہیں جس پر رکن کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ صرف نوٹس جاری کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم نے ٹیکس ریفارمز بل متعارف کرایا تھا اور موجودہ حکومت نے اُس کی مخالفت کی تھی اور وہ پارلیمنٹ ہاؤس میں منظوری کے لئے ایک سال سے پڑا ہو ا ہے، قائمہ کمیٹی نے اُسے دوبارہ منظوری کیلئے پیش کرنے کے سفارش کر دی ۔

ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ موجودہ حکومت نے کسی ایمنسٹی سکیم کا اعلان نہیں کیا اور انکم ٹیکس پالیسی کے حوالے سے وفاقی حکومت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے چودہ ایس آر اوز جاری کیے تھے جس پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا اور کلثوم پروین ایمنسٹی سکیم اور حکومت کے ٹیکس سے استثنیٰ کے اعلان اور اس کے آمدن پر اثرات کا جائزہ لیں گے ۔

قائمہ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ کوئی بھی ایس او آر جاری کرنے سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس کو اعتماد میں لیاجائے۔رکن کمیٹی الیاس احمد بلور نے کہاکہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کہا گیا تھا کہ نئی صنعت لگانیوالے سے دس سال تک ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا اس پالیسی کی وجہ سے پرانے صنعتکار تباہ ہو جائیں گے جس پر طارق باجوہ نے کہا کہ صرف آمدن کے ذرائع نہیں پوچھے جائیں گے باقی صنعتکار سیلز ٹیکس اور آمدن ٹیکس ادا کر ے گا ۔

قائمہ کمیٹی نے وزیر اعظم کے پیکج کی تفصیلات بھی طلب کرلیں ۔کسٹم ڈیوٹی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ جولائی 2013 سے مارچ 2014 تک 169 ارب روپے اکٹھے کئے گئے جبکہ گزشتہ سال کل 164 ارب روپے وصول ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے 1402 ارب روپے ان لینڈ ٹیکس کی مد میں مارچ تک اکٹھے کر لئے ہیں جبکہ پچھلے سال یہ 1180 ارب روپے تھے ۔جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح پچھلے سال 8.5 فیصد تھی جبکہ موجودہ سال 9 فیصد ہونے کی توقع ہے ۔

رکن کمیٹی سیدہ صغریٰ امام نے کہا کہ نیٹو افواج افغانستان سے اپنا سامان نکال رہی ہیں متعلقہ ادارے آئندہ اجلاس میں اس بارے تفصیلی آگا ہ کریں۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ امپورٹ ایکسپورٹ کی صورتحال بہتر کر کے عام آدمی کی حالت میں بہتری لائے جا سکے موثر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا آلو سمگل ہو گیا اور غیر معیاری آلو کھا رہے ہیں ۔

طارق باجوہ نے کہا کہ ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں اچھی شہرت اور فرض شناس افسروں کو بڑی پوزیشنز پر تعینات کر دیا گیا ہے اور پرفارمنس منیجمنٹ یونٹ بنایا جا رہا ہے تاکہ افسران اور ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے ۔قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کے لئے موثر طریقہ کار پیش کرنے کی ہدایت کر دی جس میں غلطیوں کی گنجائش کم سے کم ہو ۔