لال مسجد آپریشن کی منظوری وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی،عبدالرشید غازی قتل کیس کے وکیل طارق اسد نے خفیہ دستاویزات حاصل کر لیں، سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت دیگر کا یہ موقف بالکل غلط ہے کہ کابینہ میں اس معاملہ پر کوئی بحث نہیں ہوتی تھی،شہداء فاؤنڈیشن، دستاویزات کے بعد اس کیس میں شوکت عزیز اوردیگر وزراء کو بھی شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے، قانونی ماہرین

منگل 13 مئی 2014 07:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13مئی۔2014ء)لال مسجد کے نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کی والدہ صاحب خاتون شہید کے قتل کے مقدمے میں ان کے وکیل اور شہداء فاؤنڈیشن کے صدر طارق اسد ایڈووکیٹ کو وفاقی کابینہ کے اس اجلاس کے منٹس کا خفیہ ریکارڈ مل گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ہی لال مسجد آپریشن کی منظوری دی تھی اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت دیگر کا یہ موقف بالکل غلط ہے کہ کابینہ میں اس معاملہ پر کوئی بحث نہیں ہوتی تھی اور طارق اسد کے مطابق ان دستاویزات کے بعد اس کیس میں شوکت عزیز اور اس وقت کے دیگر وزراء کو بھی شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔

شہداء فاؤنڈیشن کی طرف سے پیر کو یہاں جاری ہونے والے بیان کے مطابق پرویزمشرف کے خلاف علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی تحقیقات کے لئے ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پولیس کی اعلیٰ سطحی ٹیم تو لال مسجد آپریشن کی منظوری کے حوالے سے کوئی بھی دستاویز حاصل کرنے میں تاحال ناکام رہی لیکن شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان کے صدرطارق اسد ایڈووکیٹ نے لال مسجد آپریشن کی منظوری کے حوالے سے اہم خفیہ دستاویزات حاصل کرلی ہیں۔

(جاری ہے)

ان دستاویزات میں لال مسجد آپریشن کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس اوروفاقی سیکرٹری داخلہ کی طرف سے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی سمری وصول کرنے کا سرٹیفکیٹ شامل ہے۔پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت کی کابینہ کے ڈپٹی سیکرٹری محمد اصغر گوندل نے مذکورہ دونوں خفیہ دستاویزات لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن میں 9جنوری 2013کو جمع کرائی تھیں۔

شہداء فاؤنڈیشن کے صدر طارق اسد ایڈووکیٹ کو حاصل ہونے والے خفیہ دستاویزات کے مطابق لال مسجد آپریشن کی منظوری وفاقی کابینہ نے بھی دی تھی۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس منظر عام پر آنے کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ تین جولائی 2007کو پرویزمشرف کے حکم پر لال مسجد آپریشن کا آغاز کابینہ کی منظوری کے بغیر کیا گیا تھا۔ لال مسجد آپریشن کے متعلق شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان کو حاصل ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس کے مطابق پرویزمشرف کے حکم پر تین جولائی 2007سے لال مسجد و جامعہ حفصہ کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کی منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس 4جولائی 2007کو ہوا تھا،وفاقی کابینہ کے شرکا کو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے لال مسجد آپریشن کے حوالے سے بریف کرتے ہوئے کہا کہ” وفاقی حکومت نے لال مسجد کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن وہ تمام کوششیں لال مسجد انتظامیہ کے غیرمناسب روئیے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکیں،لال مسجد کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اعجازالحق نے لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ کئی دفعہ میٹنگ کی لیکن وہ بھی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے یہاں تک کہ امام کعبہ نے بھی مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کوشش کی لیکن ان کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوئی، وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ اب حکومت کی رٹ قائم کی جائے۔

حکومت نے لال مسجد والوں کے خلاف ایکشن سے صرف اس لئے گریز کیا تھا کہ مسجد کا تقدس پامال نہ ہو اور لال مسجد و جامعہ حفصہ میں موجود طلبہ بالخصوص طالبات اور بچوں کی جانیں ضائع نہ ہوں“۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس کے مطابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے کابینہ کے اجلاس کے شرکا کو لال مسجد آپریشن کے متعلق اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ”ایک روز قبل شروع کئے جانے والے ایکشن کے بعد سے ابھی تک 600طلبہ لال مسجد و جامعہ حفصہ سے باہر آچکے ہیں“۔

4جولائی 2007کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس کے مطابق” وفاقی کابینہ نے لال مسجد کے مسئلے کے حل کے لئے 3جولائی2007کو شروع کیئے گئے ایکشن کی منظوری دی“۔شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان کو لال مسجد آپریشن کے حوالے سے حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق 4جولائی 2007کو وفاقی کابینہ کی طرف سے لال مسجد آپریشن کی منظوری کے متعلق کئے جانے والے فیصلے سے وفاقی سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ کو بھی آگاہ کیا گیا تھا۔

وفاقی سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ نے 4جولائی 2007کے وفاقی کابینہ کے فیصلے سے آگاہ ہونے کے حوالے سے 17جولائی 2007کو سرٹیفکیٹ پر دستخط کیا تھا۔واضح رہے کہ لال مسجد آپریشن کی منظوری کے حوالے سے پہلی دفعہ خفیہ دستاویزی ثبوت منظر عام پر آئے ہیں۔شہداء فاؤنڈیشن کے صدر طارق اسد ایڈووکیٹ کے مطابق سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی وفاقی کابینہ کے ارکان مسلسل دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وفاقی کابینہ نے لال مسجد آپریشن کی منظوری نہیں دی تھی۔

سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی وفاقی کابینہ کے وزراء نے لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے لئے قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے روبرو پیش ہوکر بھی غلط بیانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ لال مسجد آپریشن کے متعلق کبھی وفاقی کابینہ میں بحث ہی نہیں ہوئی۔آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق لال مسجد آپریشن کی منظوری کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس منظر عام پر آنے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی وفاقی کابینہ نے لال مسجد و جامعہ حفصہ کے خلاف فوجی آپریشن میں پرویزمشرف کی بھرپور معاونت کی تھی۔

آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق لال مسجد آپریشن کی منظوری کے متعلق وفاقی کابینہ کے اجلاس کے منٹس منظر عام پر آنے کے بعد سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت ان کی وفاقی کابینہ کے تمام ارکان بھی پرویزمشرف کے برابر لال مسجد آپریشن کے ذمہ دار ہیں۔لال مسجد آپریشن کے دوران شہید ہونے والے علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کی والدہ صاحب خاتون شہید کے قتل کے مقدمے کے مدعی صاحبزادہ ہارون الرشید غازی مذکورہ دستاویزات کو اگر باضابطہ طور پر مقدمے کا حصہ بناتے ہیں تو پولیس کو سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی وفاقی کابینہ کے تمام ارکان کو بھی پرویزمشرف کے ساتھ ایف آئی آر میں شامل کرنا پڑے گا۔

متعلقہ عنوان :