آئین مستقل اور ایڈیشنل ججز میں تفریق نہیں رکھتا،سپریم کورٹ،ایڈیشنل جج کا تقرر صدر کرتا ہے مگر وہ اسے نکال نہیں سکتا ،نکالنے کا طریقہ 209ہی ہے،اٹارنی جنرل، مستقل جج ہی دراصل جج ہوتا ہے ورنہ جو مثال چل رہی ہے اسے چلنے دیں کیونکہ یہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ مسلمہ روایت آئین کا حصہ ہی شمار ہوتی ہے،چیف جسٹس، آئین میں کوئی آرٹیکل آجائے تو روایت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی،جسٹس آصف کھوسہ

منگل 6 مئی 2014 08:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مئی۔ 2014ء)سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ آئین مستقل اور ایڈیشنل ججز میں تفریق نہیں رکھتا۔اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل جج کا تقرر صدر کرتا ہے مگر وہ اسے نکال نہیں سکتا نکالنے کا طریقہ 209ہی ہے ۔لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کی موجودہ سنیارٹی کیخلاف دائر درخواست کی سماعت منگل تک ملتوی کردی ہے اٹارنی جنرل آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے جبکہ چیف جسٹس تصدق حسین نے ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست گزار کے وکیل کوئی کنونشن دکھائیں کہ مستقل جج ہی دراصل جج ہوتا ہے ورنہ جو مثال چل رہی ہے اسے چلنے دیں کیونکہ یہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ مسلمہ روایت آئین کا حصہ ہی شمار ہوتی ہے۔

ججوں کے پنشن کیس میں ایڈیشنل اور مستقل میں فرق کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار نے مخالفت نہیں کی بلکہ معاملہ کسی اور وقت کیلئے چھوڑ دیا،جسٹس آصف کھوسہ نے کہاہے کہ جب آئین میں کوئی آرٹیکل آجائے تو روایت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل سلیمان بٹ نے دلائل میں کہاہے کہ ہندوستان میں ایک فیصلہ موجود ہے ایڈیشنل جج تصور نہیں ہوتا، ایڈیشنل جج کا تقرر صدر کرتا ہے مگر وہ اسے نکال نہیں سکتا نکالنے کا طریقہ 209ہی ہے ۔

انھوں نے یہ دلائل پیر کے روز دیے ہیں جبکہ درخواست گذار اسلم اعوان کے وکیل نے دلائل مکمل کر لئے ۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گذار کے وکیل ذکاء الرحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ میں 14ستمبر 2009کو آرٹیکل197کے تحت 12ایڈیشنل جج تعینات کئے ۔17فروری 2010کو 22جج تعینات ہوئے اس طرح کل تعداد 34ہوگئی ۔

ان میں سے جوڈیشل کمیشن نے16ججوں کو مستقل نہیں کیا باقی 18ججوں میں سے 15پہلے اور تین اس کے تین چار ماہ بعد مستقل ہوگئے مگر آخری تین جو بعد میں مستقل ہوئے تھے وہ سینئر شمار ہوگئے کیونکہ بطور ایڈیشنل جج ان کی تقرری پہلے ہوئی تھی ۔فاضل وکیل نے کہاکہیہ طریقہ کار درست نہیں سنیارٹی اس روز سے شمار ہونی چاہیے جس روز ایڈیشنل جج مستقل ہوتا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ مگرآرٹیکل 197ایڈیشنل اور مستقل جج میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔وکیل نے کہا کہ ججوں کے پنشن کیس میں ایڈیشنل اور مستقل میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا مگر جسٹس ثاقب نثار نے اس کی مخالفت کی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ انہوں نے مخالفت نہیں کی بلکہ معاملہ کسی اور وقت کیلئے چھوڑ دیا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اگر ایدیشنل اور مستقل میں کوئی فرق نہیں تو مستقلی کے وقت وہ نیا حلف کیوں لیتا ہے ،جسٹس ناصرالملک نے کہاکہحلف تو وہ ایڈیشنل میں توسیع کے وقت بھی لیتا ہے ۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کہاکہ کوئی کوئی کنونشن دکھائیں کہمستقل جج ہی دراصل جج ہوتا ہے ورنہ جو مثال چل رہی ہے اسے چلنے دیں کیونکہ یہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ مسلمہ روایت آئین کا حصہ ہی شمار ہوتی ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ جب آئین میں کوئی آرٹیکل آجائے تو روایت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔اٹارنی جنرل سلیمان بٹ نے دلائل میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے دستایر کی تاریخ بیان کیاور کہاکہ ہندوستان میں ایک فیصلہ موجود ہے ایڈیشنل جج تصور نہیں ہوتا اس پر جسٹس کھوسہ نے کہاکہ ہمارے ہاں ایسے دو فیصلے موجود ہیں ۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایڈیشنل جج کا تقرر صدر کرتا ہے مگر وہ اسے نکال نہیں سکتا نکالنے کا طریقہ 209ہی ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ جج کو مستقل ہوتے وقت حلف کی ضرورت ہے ایڈیشنل کی مدت میں اضافے کے وقت نہیں ۔اس لحاظ سے آئین میں متعدد خلا موجود ہیں جنہیں عدالت نے دور کرنا ہے۔ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے کیس کی مزیدسماعت ا ٓج منگل تک ملتوی کردی ۔