کچھ عناصر طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے خوش نہیں،وزیراعظم ، سکیورٹی کا مسئلہ نائن الیون سے چل رہا ہے،اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت، افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں قدم بڑھا رہی ہیں،اگرچہ پاکستان میں حملوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ پوری طرح بند نہیں ہوئے، آئین سپریم ہے اور ہر ایک کو اس کی تکریم کرنا چاہیے،حکومت تعلیم، توانائی، معیشت اور شدت پسندی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے،ملک کی معیشت میں بہتری آ رہی ہے، ہم تعلیم پر بجٹ دو فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک لے جائیں گے،برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

منگل 6 مئی 2014 08:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مئی۔ 2014ء) وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ کچھ عناصر طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے خوش نہیں اور یہ عناصر نہ ہمارے دوست ہیں اور نہ ہی شاید وہ تحریکِ طالبان کے دوست ہیں۔برطانو ی نشریاتی ادارے کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر معاملات بگاڑنا چاہتے ہیں اور وہ امن کے مخالف ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انھی عناصر نے سبزی منڈی اسلام آباد میں دھماکہ کیا اور دیگر مقامات پر بھی ایسے دھماکے کیے۔

میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ ’ہم نے ان عناصر کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وزیرِاعظم بننے کے بعد برطانیہ کے پہلے سرکاری دورے کے اختتام پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں حملوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ پوری طرح بند نہیں ہوئے۔

(جاری ہے)

اس سوال کے جواب میں کہ بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں امن عامہ کی صورت حال کیسے بہتر ہو سکتی ہے، وزیرِاعظم نے کہا کہ سکیورٹی کا مسئلہ نائن الیون سے چل رہا ہے: ’یعنی یہ اس زمانے سے چل رہا ہے جب پاکستان میں آمریت تھی۔

اگر پاکستان میں مارشل لا نہ آتے تو کبھی سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا۔ جمہوریت کے دوران آج تک نہ ملک اور نہ ہی عوام کو سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہوا ہے۔شدت پسندی کے بارے میں نوازشریف کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں نے سیاست دانوں کو ایک کنارے لگا کر ایسے عناصر کے ساتھ تعلق بڑھانے کو ترجیح دی جن کا جمہوریت کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا: ’ایسے عناصر کے ساتھ تعاون کا تو یہی نتیجہ نکلنا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔

یہ ہماری اپنی غلطیوں، ہمارے اپنے قصوروں کی پیداوار ہے۔نواز شریف نے کہا کہ سکیورٹی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت، افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں قدم بڑھا رہی ہیں: ’ہماری پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ بات چیت شروع ہے۔ اس سلسلے میں پیش رفت ہماری توقع سے کم ہے، تاہم اگر مزید خون بہائے بغیر ہم امن حاصل کر لیتے ہیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ کے ایک حالیہ بیان کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے درست کہا ہے کہ آئین سپریم ہے اور ہر ایک کو اس کی تکریم کرنا چاہیے: ’فوج کے سربراہ کے بیان سے بہت سے ابہام دور ہوئے ہیں۔جب وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی حمایت کریں گی، لیکن جب ایک صحافی کسی ریاستی ادارے پر انگلی اٹھاتا ہے تو ملک بھر میں شور کیوں برپا ہو جاتا ہے، تو نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ایک دم یہ اخذ نہیں کر لینا چاہیے کہ کون اس کا ذمہ دار ہے۔

جب تک حقائق سامنے نہ آ جائیں، قیاس آرائی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں کمیشن کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔ پتہ چل جائے گا کہ کون اس کا ذمہ دار تھا۔بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کو زخم لگائے گئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی کو کیسے قتل کیا گیا اور پھر چند لوگوں کی موجودگی میں ان کو دفن کر دیا گیا۔

یہ مناظر کسی کو بھولے نہیں، میں بھی بلوچوں کے زخموں کو محسوس کرتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پچھلے ادوار میں کچھ نہیں کیا گیا، لیکن اب بلوچستان کی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ ان کہنا تھا کہ انھوں نے وزیِراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا ہے کہ ناراض عناصر سے بات کریں اور انھیں سیاست کے قومی دھارے میں واپس لائیں’ہم بلوچستان کے ہر شہر کو گیس فراہم کریں گے اور سڑکوں کا جال بچھائیں گے۔

ان پانچ سالوں میں بلوچستان میں بے پناہ کام ہوگا۔ احساس محرومی کو کم کریں گے۔ جنھوں نے بلوچوں کے ساتھ ظلم کیا ہے انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔پاکستان میں شدت پسندی کے شدید رجحانات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ اس کی وجہ آمرانہ دور کے دوران قانون و انصاف سے انحراف ہے اور سماجی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں ہیں: ’اگر پاکستان جمہوری راستے پر رہتا، تو آج ان تمام چیزوں کا نام ونشان تک نہ ہوتا۔

’ آمریت میں ذات پات، فرقہ واریت، اونچ نیچ اور سماجی اور معاشی ناہمواریاں جم لیتی ہیں۔ آج سے 40 سال پہلے کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون شیعہ اور کون سنی ہے لیکن جب غیر جمہوری قوتیں آتی ہیں تو فرقہ وارانہ لوگ ان کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور آمریت دہشت گردی کے لیے بریڈنگ گراوٴنڈ بن جاتی ہے۔بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایک سوال پر پاکستان کے وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں: ’میرے صدر کرزئی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور بھارت میں جو بھی آئے ہمیں ان سے اچھے تعلقات بڑھانے ہوں گے۔

ہندوستان کے لوگ جسے مینڈیٹ دیں گے ہم اس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اور تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے،انھوں نے کہا کہ ’ہم سنہ 1999 کے اچھے دور کو واپس لائیں گے جب واجپائی پاکستان آئے تھے۔ ٹرین، تجارت اور ویزا کی سہولیات کو بہتر بننا چاہیے۔ ہم ہندوستان کے ساتھ بجلی پر بھی بات کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر اور دیگر معاملات کو بھی ٹھیک کرنے کے لیے کوشش کی جائے گی۔

وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ وہ عنقریب ایران کا دورہ بھی کرنے جا رہے ہیں جس کا مقصد تعلقات کو مضبوط کرنا اور گیس، تجارت اور سرحدی معالات پر بات کرنا اور ایران کے ساتھ تاریخ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔اپنی حکومت کے گذشتہ دس ماہ کی کارکردگی کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت تعلیم، توانائی، معیشت اور شدت پسندی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے: ’یہ چاروں چیزیں ہمارے منشور میں شامل تھیں اور ہم انھی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔

ملک کی معیشت میں بہتری آ رہی ہے اور پاکستان کی معیشت میں ایک نیا موڑ آ رہا ہے اور ہم تعلیم پر بجٹ دو فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک لے جائیں گے۔اپنے تیسرے ہدف کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں نئے بجلی گھر لگنا شروع ہو گئے ہیں: ’ہم جلد ہی توانائی کے مسئلے پر قابو پا لیں گے، بلکہ 20 سے 25 سال آگے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 65 سالوں میں پاکستان میں 23 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگے جبکہ اگلے آٹھ سال میں اس میں 21 ہزار میگا واٹ کا اضافہ کیا جائے گا: ’یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہو گی، کہاں 65 سالوں میں 23 ہزار اور کہاں اگلے آٹھ سالوں میں 21 ہزار میگا واٹ۔

اگر ہمیں یقین نہ ہوتا تو ہم منشور میں اس کا وعدہ نہ کرتے۔وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعاون کے حوالے سے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں برطانیہ کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں۔ برطانیہ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے اور کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں جنھیں ہم بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان کہنا تھا کہ برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے بھی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے برطانیہ پاکستان کی بھرپور مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔