جماعت اسلامی کی سابقہ قیادت کے علاوہ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور ذوالفقار علی بھٹو کا عوامی انداز بہت پسند تھا،سراج الحق ،افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھ کر نہیں ایک پڑوسی اور آزاد وخودمختار ملک کی حیثیت سے ڈیل کرنا ہوگا،کشمیر پر بھارتی ظلم کے خلاف کشمیری خودلڑ رہے ہیں،ان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتے ہیں،کشمیریوں کی آزادی کے لئے ان کا ساتھ دینا ہماری قومی پالیسی ہے،پاکستان کے آئین پر عمل ہو تو یہ فلاحی اسلامی ریاست ہے،وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور نظام کی تبدیلی کی خواہش رکھتا ہوں،نجی ٹی وی کو انٹرویو

اتوار 4 مئی 2014 07:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4مئی۔2014ء)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کی سابقہ قیادت کے علاوہ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور ذوالفقار علی بھٹو کا عوامی انداز بہت پسند تھا،افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھ کر نہیں ایک پڑوسی اور آزاد وخودمختار ملک کی حیثیت سے ڈیل کرنا ہوگا،کشمیر پر بھارتی ظلم کے خلاف کشمیری خودلڑ رہے ہیں،ان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتے ہیں،کشمیریوں کی آزادی کے لئے ان کا ساتھ دینا ہماری قومی پالیسی ہے،پاکستان کے آئین پر عمل ہو تو یہ فلاحی اسلامی ریاست ہے،وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور نظام کی تبدیلی کی خواہش رکھتا ہوں۔

(جاری ہے)

نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں سراج الحق نے کہا کہ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں امیر جماعت اسلامی بنوں گا جس دن اعلان ہوا،میں گھر جارہا تھا میں نے بہت بوجھ محسوس کیا اور میرے بچے بھی پریشان تھے،انہوں نے کہا کہ امارت سنبھالنا بہت مشکل کام ہے ،فرد واحد تمام خوبیوں کا مجمع نہیں ہوتا مجھے نیلسن منڈیلا کی جدوجہد،بھٹو کا عوامی انداز بھی پسند ہے،مولانا مودودی علم کا سمندر ہے،خان عبدالغفار خان کی کسی چیز نے مجھے متاثر نہیں کیا،ولی خان کے لطیفے شوق سے سنتا تھا،سمیع الحق مولانا فضل الرحمن کے استاد ہیں،دونوں عمر میں مجھ سے بڑے ہیں،سمیع الحق مدرس ہیں اور فضل الرحمن کی اپنی خوبیاں ہیں،ہم نے فضل الرحمن کے ساتھ کام کیا،منور حسن ہمیشہ امن اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور ساری قوم مذاکرات کی بات کر رہی ہے،انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں پسند وناپسند کی بجائے افغان عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنا چاہئے ہم نے ماضی میں حکمت یار یا کسی اور کا نہیں افغان عوام کا ساتھ دیا ہے اور ہم نے ہر لحاظ سے ان کا ساتھ دیا اور یہ کام صرف ہم نے نہیں پوری پاکستانی قوم نے دیا بعد میں طالبان کے آپس میں تنازعات اور لڑائیاں شروع ہوئیں تو ہم غیر جانبدار رہے اور ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی انہوں نے کہا کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں متحارک گروپوں کے درمیان ایک پڑوسی کی حیثیت سے صلح کرانے کی کوشش کریں گے،ہمیں افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ڈیل کرنا ہے،روس کی مداخلت پر افغان عوام کا ساتھ دینا جائز تھا،اس وقت ان کا مطالبہ تھا آج افغان عوام کا مطالبہ نہیں اور انہیں افرادی قوت کی ضرورت نہیں ،آج افغان عوام متحد ہوکر نیٹو کے خلاف ہیں ،انہوں نے کہا کہ کشمیری جدوجہد افغانستان سے مختلف ہے،کشمیری حق خودارادیت کی بات کرتے ہیں،65سال بھارت نے وہاں پر ظلم کیا اور انہوں نے ہر لمحے پر مدد کیلئے پکارا کشمیری قوم بھی آزادی کیلئے خود کھڑی ہوئی ہے ہم ان کی اخلاقی اور مالی امداد کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کا ساتھ دینا صرف جماعت اسلامی کی نہیں ہماری قومی پالیسی ہے اور کشمیر کی آزادی تک ان کا ساتھ دیں گے،انہوں نے کہا کہ پاکستان کے5فیصد لوگوں نے ملک کے وسائل،سیاسی جماعتوں اور حکومت اور پارلیمنٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے،ہم ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور نظام کی تبدیلی کی خواہش رکھتا ہوں،انقلاب عوام کی حمایت کے بغیر نہیں آسکتا،میں مولانا مودودی،منور حسن،قاضی حسین کے تجربات سے استفادہ کروں گا،انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت سے شیطان کی طرح پناہ مانگتا ہوں،ہم اس مشاورت کے قائل ہیں،جس کا خدا نے حکم دیا ہے،انہوں نے کہا کہ ہمارے آئین میں سرکاری مذہب اسلام اور حاکمیت خدا کی ہے اور عوام کو اختیار دیا گیا ہے،اگر آئین پر عمل کیا جائے تو پاکستان فلاحی اسلامی ریاست بن سکتی ہے لیکن آئین پر عمل نہیں کیا گیا،انہوں نے کہا کہ قرآن واحد کتاب ہے جس میں ترمیم نہیں ہوسکتی،آئین معاملات کو چلانے کیلئے ہے اس میں ترمیم ہوسکتی ہے،انہوں نے کہا کہ طاہرالقادری کو کبھی سنا اور نہ پڑھا ہے،ان کی باتوں کا علم نہیں،جلسے،جلوسوں اور دھرنوں کی اجازت ہے لیکن ڈنڈے کے زور پر حکومت پر قبضہ کرنا غیر قانونی ہے،انہوں نے کہا کہ طاہر القادری پاکستان آئیں ،وہ کینیڈا اور پاکستان کے ٹمپریچر میں فرق محسوس کریں گے،الطاف حسین بھی لندن کے ٹمپریچر سے نکل کر پاکستان کے ٹمپریچر کو بھی دیکھیں،انہوں نے کہا کہ فضل الرحمن نے ایک بار کہا تھا کہ حکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنا مشکل ہے ،اس میں شک نہیں کہ الیکشن فراڈ تھا اور بہت سی جگہوں پر ایجنٹس کو بھی اجازت نہیں دی گئی لیکن ہم نے آگے دیکھنا ہے،ہمیں بھارت کی طرح عدلیہ فوج اور ہر ادارے سے آزاد الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے،اگر آئین کی شق62 پر عمل ہو تو آدھی اسمبلی باہر جاسکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہمارے ساتھ کوئی بات نہیں کی تو انہیں مشورہ کیوں دوں۔