جماعت اسلامی کے قبائلی جرگے کا حکومت اور طالبان سے فوری جنگ بندی کامطالبہ،یہی صورتحال رہی تو مزاکرات کو آگے بڑھانا مشکل ہوجائے گا،سمیع الحق ،امن کی کنجی اسلام آباد کے پاس ہے اگر اسلام آباد بھی جانا پڑا تو جائیں گے،سراج الحق، کہ قوتیں آپریشن چاہتے ہیں وہ ملک کے خیر خواہ نہیں ،مولانا یوسف شاہ،مشرف کی پالیسیاں زرداری کے بعد نواز شریف نے بھی جاری رکھی ہوئی ہیں،پروفیسر ابراہیم

جمعہ 2 مئی 2014 06:21

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2مئی۔ 2014ء)جماعت اسلامی کے زیر اہتمام قبائلی جرگے نے حکومت اور طالبان سے فوری طور پر جنگ بندی کامطالبہ کیا ہے ۔یہ مطالبہ نشتر ہال پشاور میں جماعت اسلامی فاٹا کے زیر اہتمام قبائلی جرگے کا اہتمام کیا گیاجس میں طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سمیت امیر جماعت اسلامی سراج الحق پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے بھی شرکت کی مولانا سمیع الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غاروں میں رہنے والے طالبان سے ہمارا رابطہ ہوجاتا ہے لیکن اسلام آباد میں رہنے والوں سے ملنا مشکل ہے اگر یہی صورتحال رہی تو مزاکرات کو آگے بڑھانا مشکل ہوجائے گا جرگے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ خلاف ورزی کس نے کی لاپتہ افراد کیس سے ملک کی بدنامی ہورہی ہے امن کی کنجی اسلام آباد کے پاس ہے اگر اسلام آباد بھی جانا پڑا تو جائیں گے یہ آخری جرگہ نہیں اس کے بعد بھی امن کے قیام کے لیے جرگہ بلائیں گے طالبان کمیٹی کے ارکان مولانا یوسف شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم آخری حد تک امن کے قیام کے لیے جائیں گے بیرونی قوتیں نہیں چاہتی کہ ملک امن ہو اور جو چاہتے کہ آپریشن ہوں وہ ملک کے خیر خواہ نہیں طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کی پالیسیاں زرداری کے بعد نواز شریف نے بھی جاری رکھی ہوئی ہیں مزاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں فریقین کو آپس میں بیٹھنا ہوگا مزاکرات کے حوالے سے ہماری ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی ملاقات کرانی چاہیے تاکہ ان کا موقف بھی سامنے آئے ہمیں یہ اختیار نہیں کہ حکومت اور طالبان پر اپنا فیصلہ مسلط کرا سکیں حکومت اور طالبان سے اپیل ہے کہ آج ہی جنگ بندی میں توسیع کی جائے۔

(جاری ہے)

پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بھی لوگ رجب، ذی القعدہ، ذی الحج اور محرم کے مہینوں کا احترام کرتے تھے اور ان مہینوں میں جنگیں نہیں ہوتی تھیں، اس لئے وہ اپیل کرتے ہیں کہ رجب المرجب ماہ مہینہ شروع ہوگیا ہے اس لئے اس مہینے کے احترام میں پاک فوج اور طالبان دونوں اپنی کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کریں اور مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھنے دیں۔

پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ آئین کی اسلامی شقوں پرعمل درآمد کرایا جائے تو طالبان سے آئین کو تسلیم کرانے کایقین دلاتے ہیں اس کے علاوہ عدلیہ آئین کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن فاٹا کے عوام عدلیہ کے ثمرات سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا حقیقی مرحلہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ ہم نے طالبان اور حکومتی کمیٹی کی صرف ایک ملاقات کرائی جس سے فریقین کے درمیان اعتماد سازی کا عمل شروع ہوا، اصل مذاکرات تو تب شروع ہوں گے جب ہم طالبان اور پاک فوج کو ایک میز پر بٹھا سکیں گے، ماضی میں بھی پاک فوج نے طالبان کے کئی گروپوں سے 11 معاہدے کررکھے ہیں، اگر پاک فوج ان گروپوں سے معاہدے کرسکتی ہے تو وہ طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کرلے۔

اس سے قوم مشکل سے نکل آئے گی اور ملک میں امن قائم ہوجائے گا۔جماعت اسلامی فاٹا کے امیر ہارون الرشید نے کہا کہ امن کے قیام کے لیے مزاکرات کی تائید کی جاتی ہے اور دونوں فریقین کو فوری طور پر جنگ میں توسیع کرنی چاہیے جبکہ پارلیمنٹ کی قراردادوں اور آل پرٹیز کانفرنس کے فیصلوں پر عمل کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ تینوں سٹیک ہولڈرز طالبان، حکومت اور فوج مزاکرات کی راہ میں حائل روکاٹوں کو دور کریں اور امن کے قیام کے لیے کمیٹیوں کے ارکان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں طالبان کی۔