اسلام آباد،سینیٹ قائمہ کمیٹی تحفظ غذائیت و تحقیق کا اجلاس ،80لاکھ ایکٹر زمین پر کپاس کاشت کی جاتی ہے، بیج کی ضروریات چالیس ہزار میٹرک ٹن ہیں ،85فیصد پرائیویٹ سیکٹر سے بیج استعمال کیا جاتا ہے اور آٹھ اقسام میں سے ٹارزن اور نیلم پرائیویٹ کمپنیوں اور ایم این ایچ 886و ایم این ایچ 142بیج کی مانگ سب سے زیادہ ہے ،قائمہ کمیٹی کو بریفنگ، ای سی سی کے آئندہ اجلاس میں زرعی شعبے اورکسانوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کرنے کے حوالے سے سمری تیار کر لی ہے ۔ سیکریٹری وزارت،قائمہ کمیٹی نے موسمی تبدیلیوں اور کچن گارڈ ن پر بریفنگ طلب کر لی،قائمہ کمیٹی حکومت اور کاشتکاروں کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہی ہے بنیادی مقصد کسانوں کو درپیش مسائل مل کر حل کرانا ہے تاکہ زرعی شعبہ اور ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے،چیئر مین کمیٹی سینیٹر سید مظفر شاہ

جمعہ 25 اپریل 2014 08:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25اپریل۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تحفظ برائے غذائیت و تحقیق کے اجلاس میں موجودہ موسم خریف میں کپاس کے بیجوں اور کھاد کی حکومت کے پاس موجودگی کی تفصیل کے علاوہ زرعی قرضوں ، زرعی ترقیاتی بنک کو قائمہ کمیٹی کی طر ف سے دی گئی سفارشات و ہدایات پر کسانوں کو دیے گئے زرعی قرضوں اور کمرشل بنکوں کی طر ف سے چھوٹے کاشتکاروں کو ادا کئے گئے قرضوں کے علاوہ فیڈرل سیڈ سر ٹیفکیشن کی کپاس کے غیر تصدیق شدہ بیج کا پنجاب میں تقسیم کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں چیئر مین قائمہ کمیٹی سید مظفر حسین شاہ کے سوالات کے جواب میں سرکاری حکام نے آگاہ کیا کہ ملک میں 80لاکھ ایکٹر زمین پر کپاس کاشت کی جاتی ہے بیج کی ضروریات چالیس ہزار میٹرک ٹن ہیں ، پنجاب میں 62لاکھ ایکٹر پر کاشت کیلئے 31250میٹرک ٹن بیج کی ضرورت ہے اور حکومت کے پاس 92میٹرک ٹن بیج موجود ہے 85فیصد پرائیویٹ سیکٹر سے بیج استعمال کیا جاتا ہے اور آٹھ اقسام میں سے ٹارزن اور نیلم پرائیویٹ کمپنیوں اور ایم این ایچ 886و ایم این ایچ 142بیج کی مانگ سب سے زیادہ ہے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس چیئر مین قائمہ کمیٹی سید مظفر حسین شاہ کی صدار ت میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر سیدہ صغریٰ امام ، محمد ظفر اللہ خان ڈھانڈلا ، نزعت صادق کے علاوہ وفاقی وزیر سکندر بوسن ، چیئر مین زرعی ترقیاتی بنک ،چیئر مین پی اے آر سی اور ایگزیکٹو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔چیئر مین قائمہ کمیٹی سید مظفر شاہ جو خود بھی سندھ کے حاضر اور عملی زمیندار ہیں کپاس کی کاشت اور بیجوں و کھاد کے استعمال کے بارے میں سوال کے جواب میں اعلیٰ حکام نے آگاہ کیا کہ اس سال 15.1ملین ٹن کپاس کی پیداوار کا ٹارگٹ ہے لیکن حالیہ غیر موسمی بارشوں کی وجہ سے کپاس کی کاشت میں کمی ہوئی ہے ۔

پنجاب میں کپاس کی کاشت کا وقت 15جون تک ہے ٹارگٹ حاصل کر لیا جائیگا۔ سیدہ صغریٰ امام نے کہا کہ سینیٹ میں کپاس کی پیداوار اور غیر رجسٹرڈ و نان سرٹیفائید بیجوں کے استعمال کے حوالے سے میرے پوچھے گئے سوال کے جواب میں حکومت کی طر ف سے ایوان بالا میں دیے گئے بیان اور کمیٹی میں اعلیٰ حکام کی طرف سے دیے گئے جواب میں تضاد ہے ۔ ایک سال میں سیڈکارپوریشن اوروزارت خواراک کیا انقلاب لے آئی ہے جس پر چیئر مین پی اے آر سی کے چیئر مین نے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد قانونی معاملات ہیں جس پر سید ہ صغریٰ امام نے جواب دیا کہ 18ویں ترمیم تو 2011میں ہوئی ان تین سالوں میں کیا مسائل ہیں ۔

چیئر مین پی اے آر سی نے آگاہ کیا کہ این بی سی کی کلئیرنس کے بعد بیج کو استعمال کرنے کی اجازت ہے وزیر اعظم کے بعد معاملہ عدالت میں گیا اور عدالت سے گیارہ اور بیج ورائٹیوں کی منظوری لی گئی ہے ۔ چیئر مین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ وزارتیں ، حکومت زراعت کی ترقی کیلئے اور چھوٹے کاشتکاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کیلئے اقدامات کریں ۔

کھاد فیکٹریاں بند ہیں بیج تیار نہیں کیے جاتے اور ہدایت کی کہ کھاد فیکٹریوں کو ترجیحی بنیاد پر گیس کی فراہمی یقینی بائی جائے اور کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں کھاد کی پیدوار ، کھاد فیکٹریوں کو گیس کی فراہمی ، حکومت کے سٹاک میں بیج اور کھاد کی موجودگی کی تفصیلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔سینیٹر سیدہ صغری ٰ امام نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباوٴ میں ہے کڑی شرائط تسلیم کر کے گیس پر سب سیڈی کے خاتمے سے کھاد کی پیداوار پر برے اثرات مرتب ہوئے مقامی پیدوار پر سبسڈی ختم کرنے سے برآمدات کے اخراجات 10 گناہ بڑھ گئے ہیں ۔

10ارب کی سبسڈی بچاتے بچاتے کھاد کی برآم پرکئی گنا خرچہ کر دیا گیا ہے ۔سیکریٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ سٹاک میں ڈی اے پی 98ہزار ٹن موجود ہیں 42سو روپے سے کم ہو کر فی بوری 35سو روپے ہے اور نائٹرو فاسٹ کی پیدوار 3لاکھ ٹن اور فی بوری کی قیمت 25سو روپے ہے ۔ سیکریٹری وزارت نے سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کے سوال کے جواب میں بتایا کہ کھا د کی پیدوار میں سب سے زیادہ رکاوٹ گیس کی کمی ہے جو بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کی جا رہی ہے اور کھاد پلانٹ سے گیس کی کٹوتی کی جارہی ہے ۔

ای سی سی میں اس بارے کئی اجلاس منعقد ہو چکے۔ وزارت خزانہ سے رابطے میں ہیں، وفاقی وزیر سکندر بوسن نے یقین دلایا کہ کاشتکاروں اور زمینداروں کو اس سال کھاد اور بیج کی فراہمی میں واضح فرق نظر آئیگا۔ پچھلے سال خریف کیلئے پانچ لاکھ تھیلے برآمد کئے گئے اس سال صرف 1لاکھ 25ہزار منگوانے کی تجویز ہے ۔ سندھ میں کندھ کوٹ ، گدو سے گیس فراہمی کیلئے اقدامات کر لئے گئے ہیں ۔

جتنی زیادہ گیس فراہم ہو گی کھاد کی پیدوار میں اضافہ ہو گااور زرعی اجناس کی پیدوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جائیگا۔سٹیٹ بنک کی طر ف سے آگاہ کیا گیا کہ زرعی قرضوں کا ہدف 380ارب تھا جس میں 54ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔اس سال قرضے دس ارب زیادہ دیں گے ۔ پرائیویٹ بنکوں میں نیشنل بنک تیسرے اور حبیب بنک دوسرے نمبر پر ہے ۔زرعی ترقیاتی بنک کا سود نہ ہونے کے برابر ہے ۔

چالیس فیصد قرضے چھوٹے کاشتکاروں کو دیے گئے ۔زرعی ترقیاتی بنک نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران واجبات ادا نہیں کئے اگر زرعی ترقیاتی بنک نے واجبات ادا نہ کئے تو سٹیٹ بنک اسے ڈیفالٹ کر سکتا ہے ۔کمیٹی نے انڈیا ء کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا اورہدایت کی کہ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے واضح موقف اختیار کرے ڈبلیو ٹی او کے معاہدوں کے مطابق حکومت کاشتکاروں کے مفادات کو مد نظر رکتھے ہوئے بھارت سے معاہدے کرے اور مالی سال 2014-15کے بجٹ میں کسانوں کو خصوصی ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرے اور بجٹ تجاویز سے قبل ملک کی کسان تنظیموں سے مشاورت کرے اور دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بلا کر آئندہ بجٹ میں کسانوں کو ریلیف دینے کے حوالے سے تجاویز مرتب کی جائیں۔

جس پر وزارت کے سیکریٹری نے کہا کہ ای سی سی کے آئندہ اجلاس میں زرعی شعبے اورکسانوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کرنے کے حوالے سے سمری تیار کر لی ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے موسمی تبدیلیوں اور کچن گارڈ ن پر بریفنگ طلب کر لی۔چیئر مین کمیٹی سینیٹر سید مظفر شاہ نے کہا کہ قائمہ کمیٹی حکومت اور کاشتکاروں کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہی ہے جس کا بنیادی مقصد کسانوں کو درپیش مسائل مل کر حل کرانا ہے تاکہ زرعی شعبہ اور ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے ۔

متعلقہ عنوان :