وزیراعظم نے روس کے ساتھ دوطرفہ روابط کومستحکم کرنے کیلئے نئی گائیڈلائن دی ہے،سرتاج عزیز،گزشتہ دوسالوں میں سیاسی اورڈپلومیٹک اورقومی سطحوں پرتعلقات کومستحکم کرانے کی کوشش جاری ہے ،2001ء میں امریکہ میں ہونے والی دہشتگردی کے حملوں اورافغانستان میں بین الاقوامی مداخلت کے بعدپاکستان کے اس سے تعلقات مستحکم کرنے ہیں،سینٹ میں وقفہ سوالات کے جوابات

بدھ 23 اپریل 2014 08:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23اپریل۔2014ء)وزیراعظم کے مشیربرائے امورخارجہ سرتاج عزیزنے کہاہے کہ وزیراعظم محمدنوازشریف نے روس کے حوالے سے نئی گائیڈلائن دی ہے کہ دوطرفہ روابط کومستحکم کیاجائے ،گزشتہ دوسالوں میں سیاسی اورڈپلومیٹک اورقومی سطحوں پرتعلقات کومستحکم کرانے کی کوشش جاری ہے ،2001ء میں امریکہ میں ہونے والی دہشتگردی کے حملوں اورافغانستان میں بین الاقوامی مداخلت کے بعدپاکستان کے اس سے تعلقات مستحکم کرنے ہیں ۔

ان خیالات کااظہارانہوں نے منگل کے روزسینٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ اس وقت سے دونوں ممالک پاکستان اورروس کے درمیان تعلقات بتدریج بہترہورہے ہیں اوراہم سیاسی اورسیکورٹی امورپرباہمی مفاہمت کوفروغ حاصل ہواہے اورمختلف شعبوں میں تعاون کاآغازہواہے ،پاکستان روس کے بطورایک اہم سیاسی اوراقتصادی کردارکہ دنیاکے اس خطے میں دوبارہ ابھرنے کوپوری طرح تسلیم کرتاہے اورایساپوری دودہائیوں کے بعدہورہاہے ،اس طرح سے روس جانتاہے کہ پاکستان اورافغانستان اینڈگیم میں اہم کرداراداکرسکتاہے ایساامرجواس کیلئے 2014ء سے بیشترمنظرنامے میں مستقل طورپرباعث تشویش رہاہے ۔

(جاری ہے)

جیساکہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات بہترہونے لگے ہیں ہم اس قابل ہوچکے ہیں کہ اہم سیاسی اورسیکورٹی امورپرباہمی مفاہمت قائم کریں ،گزشتہ دوسالوں میں سیاسی ،ڈپلومیٹک اورفوجی سطحوں پرکئی اعلیٰ سطح کے دوروں کاتبادلہ کیاجاچکاہے ۔انہوں نے کہاکہ چارجون 2002ء کوآل ماتے میں دونوں ممالک کے صدورکے مابین پاکستان ،روس کانفرنس کی ملاقات کے بعداسٹریٹجک استحکام کیلئے ایک مشاورتی گروپ قائم کیاگیا۔

اب تک 8اجلاس منعقدکئے جاچکے ہیں یہ ایک ایساپلیٹ فارم ہے جس پرایسے امورپرخیالات کاتبادلہ کیاجائیگاجن کاتعلق باہمی دلچسپی کے دیگرامورکے ساتھ ساتھ اسلحے کے کنٹرول ،عدم پھیلاوٴاوراسلحے سے پاک کرنابھی شامل ہیں ۔بہت سے اسلحہ کنٹرول کرنے سے متعلقہ امورپرباہمی تعاون کوفروغ حاصل ہورہاہے ۔مثلاًروایتی ہتھیار،بیرونی خلامیں اسلحہ کی دوڑکوروکنااوراینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کی نوعیت کوعدم مستحکم بناناتاہم پیش رفت مثبت ہے لیکن ایک خودمختاراوربھرپورتعلق کے فروغ کے لئے مستقل طورپرسنجیدہ روی درکارہے۔

روسی دورمی ،پاکستان برآمدکنندگان نے اپنی مصنوعات کوروس میں برآمدکے لئے اپنے حقوق حاصل کئے جوروسی بحری جہازوں کے لئے ان کے کمائے جانے والے سمندری بحری کرایوں کی قیمتوں کے مساوی تھیں ۔سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعدپاکستانی برآمدکنندگان کے حوالے سے ان کے حقوق کے بارے میں تنازعات امڈپڑے جن کاتعلق اس بات سے تھاکہ وہ سویت بحری بیڑوں کے لئے خودسے انتظام کرنے والے بحری کرائے کے بدلے میں ر وس(بعدمیں قائم ریاست)اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرسکیں۔

چونکہ پاکستانی برآمدکنندگان کے دعووٴن کے تصفیے کے معاملے پربات چیت میں روس اورپاکستان دونوں جانب سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی اس لئے پاکستانی کمپنی نے رشین فیڈریشن کے خلاف قانونی مقدمہ کرکے قانونی چارہ جوئی کی ۔اس کے جواب میں سندھ ،ہائی کورٹ نے نیشنل بینک آف پاکستان میں کھولے گئے روسی تجارتی اداروں کے دوکھاتوں میں دستیاب فنڈزکومنجمدکرنے کاحکم دیاتاکہ سابقہ وقت ایس ایس آرکی جانب سے حکومت پاکستان کودیئے جانے والے قرضوں کی واپسی میں آسانی ہواس وقت سندھ ہائیکورٹ میں چھ قانونی مقدمات زیرالتواء ہیں جن میں سے ایک مقدمہ روسی بینک کاہے ۔

باہمی دعووٴں کاحل نہ ہونادونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے فروغ اورپاکستان میں روسی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہے ۔اس دیرینہ مسئلے کے حل کیلئے وزیراعظم پاکستان نے وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی سربراہ میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جوتمام سٹیک ہولڈرزکے ساتھ افہام وتفہیم کے ذریعے اس مسئلے کے حل کیلئے اپناروڈمیپ تیارکرچکی ہے ۔

امیدہے کہ یہ مسئلہ حل ہونے پرآنے والے مہینوں دونوں ممالک کے دوران دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔روس کی تمام بڑی کمپنیاں ریاست کی ملکیت ہیں اس لئے وہ اپنی پالیسی کے مطابق کھلی نیلامی میں حصہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں ۔تاہم حکومت پاکستان پی پی آراے قواعدکے تحت شفافیت اورقیمت کی موزونیت کویقینی بنانے کیلئے کھلی نیلامی کے لئے ٹینڈرطلب کرنے کاپابندہے ۔

حکومتوں کے درمیان معاہدوں کے دوران چندایک استثنیٰ پرغورکیاجاسکتاہے ۔خاص طورپران منصوبوں کے لئے جن کے اپنے بنچ مارکس ہوتے ہیں جوپیشکش کی موزونیت کے تعین میں مدددے سکتے ہیں ۔تاہم ایسے منصوبے جن کے بنچ مارکس نہیں ہوتے وہ کھلی نیلامی کے طریقہ کارکواپناتے ہیں ۔ہم روس پرزوردے رہے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی پردوبارہ غورکرے اورپاکستان میں نیلامی میں حصہ لے ۔

متعلقہ عنوان :