چیئرمین نیب کی تقرری کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت،ایڈوائس اور مشاورت اگر وزیراعظم نے ہی کرنی ہے تو نیب آرڈیننس کی سیکشن چھ کے تحت صدر مملکت کے آئینی کردار کو کہاں رکھیں گے؟ جسٹس ناصر الملک،یہ کیسی مشاورت ہے کہ ایک دن میں ریٹائرمنٹ دوسرے دن تقرر اور تیسرے دن نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا،جسٹس سرمد جلال،چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت کا تحریری طورپر کوئی ریکارڈ موجود نہیں،حکومتی وکیل کا اعتراف،چیئرمین نیب کی تقرری پر حکومت اور اپوزیشن میں مک مکا ہوا ہے،حامد خان، حکومت نے چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے مشاورت کے تمام تر ضابطے پورے کئے، اعتزاز احسن،پارلیمانی نظام پر حکومت میں تمام تر اختیارات کا منبع وزیراعظم ہیں صدر مملکت کے پاس کوئی اختیار نہیں،عدالت کی اعتزاز احسن کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت

جمعہ 18 اپریل 2014 06:46

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اپریل۔ 2014ء )قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری کیخلاف تحریک انصاف کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایڈوائس اور مشاورت اگر وزیراعظم نے ہی کرنی ہے تو نیب آرڈیننس کی سیکشن چھ کے تحت صدر مملکت کے آئینی کردار کو کہاں رکھیں گے؟ ۔

سول سرونٹ کے معاملہ پر اعتراض کو قبول کرلیا جائے تو مذکورہ سیکشن کو غیر قانونی قرار دینا لازمی ہوجائے گا ۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ یہ کیسی مشاورت ہے کہ ایک دن میں ریٹائرمنٹ دوسرے دن تقرر اور تیسرے دن نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں تسلیم کیا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت کا تحریری طورپر کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔

(جاری ہے)

عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری پر حکومت اور اپوزیشن میں مک مکا ہوا ہے قمر الزمان ریٹائر نہیں ہوئے تھے کہ انہیں چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا ۔ صدر مملکت سے بامعنی مشاورت نہیں کی گئی جبکہ قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن نے دلائل میں کہاہے کہ حکومت نے چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے مشاورت کے تمام تر ضابطے پورے کئے ہیں، پارلیمانی نظام پر حکومت میں تمام تر اختیارات کا منبع وزیراعظم ہیں صدر مملکت کے پاس کوئی اختیار نہیں۔

عدالت نے اعتزاز احسن کو آج جمعہ کو گیارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کا حکم دیا ہے جمعرات کو سماعت شروع ہوئی تو حامد خان نے چیئرمین نیب قمر الزامان چوہدری کیخلاف دائر درخواست کے سلسلہ میں دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دلائل کی فارمولیشن پیش کی انہوں نے کتابیں بھی پیش کیں کہ صدر مملکت چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند ہیں انہوں نے نیب آرڈیننس کی سیکشن 6(B)(1) کا حوالہ بھی دیا ۔

قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے بھی مشاورت کرنا ضروری ہے تقرری صدر نے کرنا ہوتی ہے اور اسے قائد حزب اختلاف سے بھی مشاورت کرنا ہوتی ہے یہ ا یڈوائس کا کیس نہیں ہے ۔ انہوں نے چوہدری نثار علی خان کیس کا بھی حوالہ دیا ۔10اکتوبر 2013ء کو قمر لزامان کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ دو لیڈروں سے مشاورت ضروری تھی اور نوٹیفکیشن یہ سب ظاہر کررہا ہے ۔

حامد خان نے کہا کہ صدر مملکت نے کوئی متحرک کرداراد ا نہیں کیا، نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی آپس میں مشاورت کے بعد صدر مملکت نے انہیں چیئرمین نامزد کیا صدر مملکت کا عہدہ ربڑ سٹمپ نہیں ہے کہ دو رہنماؤں نے مشاورت کرلی تو صدر مملکت کی ذمہ داری مشاورت کے حوالے سے ختم نہیں ہوگی ۔ جسٹس ناصر الملک نے پوچھا کہ اس حوالے سے مشاورت منٹس ریکارڈموجود ہے یا نہیں، اخبارات میں شائع ہونے والی بات نہ کریں ریکارڈ کا بتائیں ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ مشاورت تحریری طور پر ریکارڈ کی شکل میں موجود نہیں سب کچھ زبانی کلامی ہوا ہے۔ حامدخان نے کہا کہ فصیح بخاری کے حوالے سے سابق صدر نے اپوزیشن لیڈر کو خط بھی لکھا تھا مگر اس کو بھی مشاورت قرار نہیں دیا گیا ۔ مشاورت بامعنی ہونا ضروری ہے صرف اپوزیشن لیڈر سے ملاقات کرنا ہی کافی نہیں ہے یہ سب کرنے کا مقصد معاملات کو شفاف رکھنا ہے کیونکہ نیب چیئرمین کا عہدہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ،صدر مملکت نے بھی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنا تھی جو نہیں کی گئی۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ کے کیس میں کیا صدر مملکت کو کوئی خط لکھا گیا ؟ حامد خان نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان تو مشاورت ہوئی ہے مگر صدر سے مشاورت نہیں کی گئی وزیراعظم نے دو رہنماؤں کی رضا مندی سے سمری بھجوادی جس پر آپ سمجھتے ہیں کہ بامعنی مشاورت نہیں ہوئی ۔

حامد خان نے کہا کہ جی ہاں ایسے ہی ہوا ہے۔ جسٹس سرمدجلال عثمانی نے کہا کہ فصیح بخاری کیس میں تو اپوزیشن لیڈر خود کورٹ میں آگیا تھا کہ ان سے مشاورت نہیں کی گئی آپ کو طریقہ کار کے تحت مشاورت نہ کرنے پر کورٹ آئے ہیں دونوں کے معاملات میں فرق ہے آپ اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں آپ کا کہنا ہے کہ مک مکا ہوا ہے ۔ حامد خان نے کہا کہ جی ہاں میرا یہ موقف ہے اگر مشاورت بامعنی ہوتی تو مجھے عدالت آنے کی قطعی ضرورت نہ تھی، صدر مملکت سے تو سرے سے مشاورت ہی نہیں کی گئی ،اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو فصیح بخاری کی تقرری درست تھی، صدر مملکت نے فصیح بخاری کے حوالے سے آخری خط 2011ء میں لکھا تھا۔

جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ فصیح بخاری نے رویو دائر ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا کیا مشاورت کا عمل دستاویزی ہونا چاہیے تھا۔ حامد خان نے کہا کہ جی ہاں یہ ضروری تھا مگر اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اس تقرری میں تین دفاتر شریک ہوتے ہیں صدر مملکت پہلے نمبر پر ہیں جبکہ دیگر دو مشاورتی دفاتر ہیں۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس معاملہ گیا تو انہوں نے منظور کرلیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ صدر مملکت نے بھی اس تقرری پر اتفاق کیا ہے ؟ حامد خان نے کہا کہ نام کی منظوری دینا صدر مملکت کی آئینی ذمہ داری تھی اس پر مشاورت کا تاثر ظاہر نہیں ہوتا ایک طرف اگر مشاورت ہے تو دوسری طرف قانون میں دی گئی اہلیت بھی ہے مگر یہاں دونوں کا خیال نہیں رکھا گیا ماضی میں ان کا کردار داغدار تھا اس لئے قمر الزامان چیئرمین نیب بننے کے اہل نہ تھے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اس وقت کسی کو ریٹائر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک وہ استعفیٰ دے کر دفترنہ چھوڑ دے ۔ حامد خان نے کہا کہ قمر الزمان نے استعفیٰ دیا جس کو عجلت میں منظور کیا گیا کیونکہ حکومت ذہن بنا چکی تھی کہ ان کو چیئرمین نیب مقرر کرنا ہے لگتایہی ہے کہ اس حوالے سے قمر الزمان کوبھی آگاہ کردیا گیا تھا ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ تقرری کی تاریخ اور مشاورت کی تاریخوں میں کیا زیادہ اہم ہے۔

حامد خان نے کہا کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد مشاورت بے معنی ہے اصل مشاورت تو نوٹیفکیشن سے قبل ہونا چاہیے تھی ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ فصیح بخاری کیس میں تو خط لکھ کر مشاورت کا آغاز کیا گیا مگر اس سے کوئی چیز تحریری شکل میں موجود نہیں ہے حامد خان نے کہا کہ ان کے پاس کوئی ڈاکومنٹ نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے ۔ جسٹس ناصر الملک نے پوچھا کہ مشاورت کے حوالے سے اتفاق رائے کی تاریخ کون سی ہے ؟ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ یہ مشاورت نہیں ہوتی کہ ایک دن ریٹائر ہوا دوسرے دن سمری بھجوائی اور تیسرے دن منظور ہوگئی اس نقطہ نظر سے تو مشاورت ہوئی ہی نہیں ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ چیئرمین نیب کے کئی امیدوار تھے ان پر مشاورت کی گئی یہ سب میڈیا میں آتا رہا مگر اس حوالے سے ریکارڈ موجود نہیں ہے اس حوالے سے تفصیلات اپنے دلائل کے دوران دوں گا ۔ حامد خان نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں مک مکا ہوچکا تھا اس لئے جیسے ہی قمر الزمان ریٹائر ہوئے انہیں چیئرمین مقرر کردیا گیا۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ جج کو دو سال کا انتظار کرنا تھا جبکہ دیگر کو نہیں ۔

حامد خان نے کہا کہ امیدواروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا گیا جانبداری کی گئی اور چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا ممکن ہے کہ کہ مک مکا کے لفظ سے اعتراز احسن کو اعتراض ہو چار دسمبر 2013ء کو قمر الزمان ریٹائر ہوئے ان کی عمرریٹائرمنٹ کی نہیں تھی یہ طے شدہ تھا اس لئے وہ ریٹائر ہوئے ۔ جسٹس ناصر نے کہا کہ ریٹائر تو ہوگئے چاہے وقت سے پہلے ہی ہوئے تھے ۔

حامد خان نے کہا کہ قمر الزمان ابھی ملازمت میں تھے کہ حکومت اپوزیشن نے مشاورت مکمل کرلی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا قمر الزمان چیئرمین بننے کے اہل تھے یا نہیں؟ ۔ حامد خان نے کہا کہ ان کی تقرری امتیازی ہے مگر بطور امیدوار ان کا بطور چیئرمین نیب کا جائزہ لیا جاسکتا تھا یہ سب نارمل طریقے سے ہوتا تو مسئلہ نہ تھا مگر اس کیس میں خصوصی طور پر جلد بازی کی گئی ۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ کیا ملازمت میں رہنے والا کام کے قابل ہوتا ہے یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد؟ حامد خان نے کہا کہ یہ تو جائزہ لینے والوں کو دیکھنا تھا۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ سول سرونٹ تو حکومت میں ہوتا ہے اگر ریٹائر ہوکر وہ دوبارہ ملازمت میں آتے تب ہی ایک ہی بات ہے ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو سول سرونٹ کو اس عہدے کے لیے مناسب خیال نہیں کرتا تو پھر نیب آرڈیننس کی سیکشن 6(B)1 کو غیر قانونی قرار دینا پڑے گا ۔

حامد خان نے کہا کہ قانون ساز اداروں کواس پر مشاورت کرنا چاہیے کیونکہ سول سرونٹ کے علاوہ باقی دو شرائط جن میں مسلح افواج کا سابق افسر ہونا اور سابق جج زیادہ چھلنی سے گزرتے ہیں ، حامد خان نے دلائل مکمل کرلئے محمود اختر نقوی نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ نواز شریف نے قمر الزمان کو ملاقات کے لیے بلایا اور انہیں سیکرٹری داخلہ ہونے کے باوجود چیئرمین نیب کے عہدے کی پیشکش کی وہ سول سرونٹ تھے اس کے باوجود ان کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا ۔

وزیراعظم نواز شریف اور سید خورشید شاہ کیخلاف آرٹیکل 62،63 کے تحت نااہل قرار دیا جائے ۔ قمر الزمان چوہدری کو بھی نااہل قرار دیا جائے ۔ وزیراعظم نواز شریف اور خورشید شاہ کو بھی معلوم تھا کہ سپریم کورٹ میں قمر الزمان کیخلاف مقدمہ چل رہا ہے ایک فیصلہ بھی آچکا ہے، بیرسٹر اعتزاز احسن قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ عدالت قمر الزمان کے حوالے سے بطور امیدوار فٹ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ دینے سے قبل اپنے فیصلے بھی ضرور ملاحظہ فرمالے سیکشن چھ نیب آرڈیننس واضح طور پر کہتا ہے کہ قومی احتساب بیورو ملک بھر میں قائم کیاجائے گا ۔

چار سال کے لیے چیئرمین نیب کا تقرر ہوتا ہے سپریم کورٹ جج کے طریقہ کار کے مطابق بھی اس کو کونوکری سے فارغ کیا جاسکتا ہے ۔ حامد خان نے آٹھ نکات پیش کئے ہیں تقرر کی جائے جائزہ لینے کی بات کی ہے حالانکہ بات تقرر کی گئی ہے ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد کی شرط قانون میں نہیں ہے باقی معاملات پر بات نہیں کروں گا سول سرونٹ سیاست زدہ ہوجاتا ہے اس لئے حامد خان نے اس پر بات کی ہے سول سرونٹ فرمانبردار ہوتا ہے صدر مملکت وزیراعظم کی بھجوائی گئی ایڈوائس پر عمل کے پابند ہیں آرٹیکل 48 کے حوالے سے فیصلے موجود ہیں جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اس میں آرٹیکل 48کی ضرورت نہیں تھی اعتزاز احسن نے کہا کہ زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کے گورنر پابندنہیں تھے کیونکہ یہ ایک طے شدہ طریقہ کار ہے جس کے تحت تقرری ہوتی ہے تین اہم ترین افراد سے مشاورت کی گئی قمر الزمان کیخلاف بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا حکومت نے سات بار اس معاملے پر مشاورت کی، نواز شریف کی جماعت پہلی مرتبہ اقتدار میں نہیں آئی وہ سینئر سیاستدان ہیں ان کے پاس 30 سال کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طرح سے معاملات کو الجھایا جاسکتا ہے مگر وہ سمجھ چکے ہیں کہ جمہوریت کو چلانا ہے اس لئے وہ بہتر طریقے سے مشاورت کرتے رہے ۔

آپ قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال نہیں کرسکتے حکومت کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے آرٹیکل 105گورنر جبکہ 48 صدرمملکت کے اختیارات واضح کرتا ہے اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے قبل 177آرٹیکل کا جائزہ لیں تو کافی کچھ واضح ہوجاتا ہے اب تو جوڈیشل کمیشن آگیا ہے اور بھی کئی چیزیں آگئی ہیں پہلے ججز کے تقرر میں صدر مملکت کو چیف جسٹس سے مشاورت کا پابند کیا گیا تھا مگر اس سے یہ ہرگز نہیں تھا کہ وزیراعظم کا کردار ختم ہوگیا ایڈوائس تو وزیراعظم نے ارسال کرنا تھی جس پر عمل کرنا صدر مملکت کے لیے لازمی تھا الجہاد ٹرسٹ کیس میں عدالت نے فیصلہ دے رکھا ہے ۔

صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کے پابند ہیں ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ایڈوائس کی پابندی کی بات تو واضح ہے مگر کیا صدر کے احکامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اب صورتحال بدل چکی ہے جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اگر وزیراعظم نے اکیلے ہی ایڈوائس دینی ہے ارو اس پر عمل کے لیے صدر مملکت پابند ہیں تو پھر چیئرمین نیب کی تقرری میں صدر مملکت کی قائد حزب اختلاف پر کس طرح سے مشاورت کرے گا اور اس کی کیا حیثیت ہوگی ۔

اعتزاز احسن نے کہاکہ صدر مملکت کا کہیں تذکرہ نہ بھی ہو تب بھی ان سے مشاورت ضروری ہوگی مشاروت کی گئی ہے ۔ صدرمملکت کا جہاں بھی ذکر آئے گا اس کے ساتھ وزیراعظم کا تذکرہ بھی ہوگا ۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ وزیراعظم نے چیئرمین نیب کے حوالے سے دو طرح سے کردارادا کرنا ہوتا ہے ایک طرف تو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت جبکہ دوسرا ایڈوائس بھجوانا ہے جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ جہاں وزیراعظم کاذکر نہیں ہے وہاں صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہوتا ہے مگر یہاں تو صدر مملکت سے مشاورت کا ذکر کیا گیا ہے ۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ صدر سے مشاورت کا مطلب وزیراعظم سے مشاورت کرنا ہے وزیراعظم نے اگر قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرلی تو ان کا کسی نام پر اتفاق ہوگیا تو پھر صرف وزیراعظم نے ایڈوائس میں بھجوائی ہے جس پر عمل کرنا صدر کے لیے ضروری ہے ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں وزیراعظم کو کوئی آزادانہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ سابق صدر رفیق تارڑ اور آج کے صدر ممنون حسین کے درمیان اختیارات کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اگر وزیراعظم نے ایڈوائس بھجوائی ہے تو پھر ان سیکشن 6 کے تحت قائد ایوان کا کردار کہاں رہ گیا ہے۔ جسٹس سرمد جلال نے کہاکہ دوسرے معانی میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت کا نقطہ غیر موثر ہوچکا ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ صدر کا لفظ ایسے ہی لکھا گیا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ چیئرمین نیب کا تقرر کس نے کرنا ہے اگر اتفاق رائے بھی ہو پھر فیصلہ کون کرے گا۔ کیا صدر مملکت کا کردار ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے اس دوران وفاق کے وکیل خواجہ حارث سے چیئرمین نیب کی تقرری کی سمری طلب کی۔ خواجہ حارث نے عدالت میں سمری پیش کی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔

حامد خان کو اس کی کاپی دیں۔ اعتزاز احسن نے سمری پڑھ کر سنائی۔ سمری رولز آف بزنس کے مطابق ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے وزیراعظم کو بااختیار بنادیا ہے۔ وزیراعظم صدر مملکت کی بجائے صرف قومی اسمبلی کو جوابدہ ہیں۔ 14 رکنی لارجر بنچ کا ایک فیصلہ بھی پیش کیا کہ چیئرمین نیب کے تقرر میں صرف اپوزیشن لیڈر سے ہی مشاورت ہوگی۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کی بات کی گئی حالانکہ سپریم کورٹ خود چیف جسٹس ڈوگر سے مشاورت کو غلط قرار دے چکی ہے۔

اگر آپ چیف جسٹس کو اس میں لائیں گے تو تقرر غیرقانونی ہوجائے گا۔ اگر سرکاری ملازم نے اچھی نوکری کی ہے تو اسے چیئرمین کیوں نہیں لگایا جاسکتا؟۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ مشاورت فاسٹ ٹریک پر ہوئی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر مشاورت کے منٹس پیش کئے جائیں تو مسئلہ اور بھی خراب ہوجائے گا۔ عظمت حنیف کو پبلک سروس کمیشن میں چیئرمین کے طور پر کے پی کے حکومت نے مقرر کردیا ہے اس میں ریٹائرڈ آفیسر ہی رکھا جاسکتا ہے اور دوسری جانب یہ وفاق کے اقدام کو غلط قرار دے رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ آپ اسے درست قرار دے رہے ہیں اور اس کے بعد آپ نے یہ درخواست دی ہے۔ عدالت نے قمرالزمان کیخلاف ہی فیصلہ نہیں دیا بلکہ رؤف چوہدری بھی اس میں شامل تھے۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ اگر ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے انتظار کا کہا گیا ہے تو یہ شرط سول سرونٹ کیلئے کیوں نہیں رکھی گئی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ججز نے 62 سے 65 سال تک کام کیا ہوتا ہئے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ ججز کو الگ کرنے کا مقصد ان کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ سول سرونٹ حکومت کو سپورٹ کرتا ہے تو بطور چیئرمین نیب بھی تو وہ حکومت کی حمایت کرسکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اس حوالے سے تحریک انصاف بل ڈرافٹ کرکے کیوں نہیں دیتی کہ ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا کیوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔