سپریم کورٹ کا تھری جی اور فور جی کی نیلامی سے حاصل رقم حکومتی فنڈز میں بھجوانے کا حکم ،عارضی بنیادوں پر عدالتی فیصلے تک اس پیسے کے استعمال پر پابندی لگادی، میڈیا سپیکٹرم کی نیلامی تک محتاط رپورٹنگ کرے اور کوئی ایسی خبر شائع نہ کی جائے جس سے نیلامی پر برے اثرات مرتب ہوں،عدالت کا فیصلہ،عوام کے پیسے کا مثبت استعمال چاہتے ہیں، ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ یو ایس ایف فنڈز کا پیسہ حکومتی فنڈز میں جاسکتاہے یا نہیں،جسٹس جواد ایس خواجہ،گزشتہ حکومت نے تین مرتبہ سپیکٹرم لائسنسوں کی نیلامی کا عمل شروع کرنے کی کوشش کی تاہم بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اسحاق ڈار ، موجودہ حکومت میں نیلامی کا سارا عمل شفاف طریقہ سے جاری ہے، آکشن کروانا پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی ذمہ داری ہے ،نیلامی کے عمل میں وزارت خزانہ یا اپنے ذاتی اثر و نفوذ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، حکومت کو پانچ لائسنسوں کی فروخت سے 1.3 ارب ڈالرز سے زائد آمدن حاصل ہوگی، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 17 اپریل 2014 06:54

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اپریل۔2014ء ) سپریم کورٹ نے تھری جی اور فور جی کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم حکومتی فنڈز میں بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے عارضی بنیادوں پر عدالتی فیصلے تک اس پیسے کے استعمال پر پابندی لگادی ہے اور اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ میڈیا سپیکٹرم کی نیلامی تک محتاط رپورٹنگ کرے اور کوئی ایسی خبر شائع نہ کی جائے جس سے نیلامی پر برے اثرات مرتب ہوں یہ فیصلہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز جاری کیا ہے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے پیسے کا مثبت استعمال چاہتے ہیں ۔

یو ایس ایف فنڈز کا پیسہ حکومت قانون کے دائرے میں رہ کر ہی استعمال کرسکتی ہے تاہم ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ یو ایس ایف فنڈز کا پیسہ حکومتی فنڈز میں جاسکتاہے یا نہیں ۔

(جاری ہے)

عدالت نے میڈیا کی خبروں بارے چیئرمین پی ٹی اے کا بیان ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا ہے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت یو ایس ایف کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہیں کرتی ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لائسنس کے پیسے میں یو ایس ایف کے پاس ہوتے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ ریونیو کو مختلف طریقے سے اکٹھا ہوتا ہے ملکی اثاثے بھی فروخت ہوتے ہیں وہ بھی ریونیو ہے۔

اے جی نے بتایا کہ بھارت میں ایک اکاؤنٹ کے بارے میں پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا کہ وہ پیسے دوسرے اکاؤنٹ میں جاسکتے ہیں ۔

جسٹس جواد نے پوچھا کہ کیا پی ٹی اے کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے ؟ عدالت کو بتایا گیا کہ دو ممبر آچکے ہیں تیسرا ایڈیشنل سیکرٹری وزارت قانون ہے اس کی باقاعدہ تقرری نہیں ہوسکی ہے عدالت نے درخواست گزار کے وکیل علی رضا سے کہا کہ وہ فارمولیشن بنا کر دے دیں اس کیس کے فیصلے کی ہمیں جلدی نہیں ہے ویسے بھی ابھی تھری جی اور فور جی کی نیلامی ہونا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اس حوالے سے فیصلہ دیکھا بعد ازاں عدالت نے حکم نامہ تحریر کرایا کہ اس کیس کی سماعت پر فیصلہ دینگے سپیکٹرم کے اصل مالک عوام ہے مگر اس کو چلاتی فیڈریشن ہے ۔ اس کی نیلامی ہونے جارہی ہے جو 23اپریل 2014ء کو ہوگی اس میں سوال یہ ہے کہ کیا یو ایس ایف فنڈز کا پیسہ کہاں جائے گا ؟ اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا کہ ان کی نیلامی کا پیسہ وفاق کے پاس جائے گا اس کے استعمال کا الگ طریقہ ہوگا ۔

سید اسماعیل شاہ چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پریس میں غلط بتایا گیا ہے نیلامی کا پیسہ کم ہوگا حالانکہ ایسا نہیں ہے میڈیا نے جس بارے میں بات کی ہے وہ نیلامی سے قدرے مختلف ہے ۔ میڈیا کی اس رپورٹنگ کے نیلامی پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں چار بولی دہندگان بولی دینگے اور وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن مارکیٹ کو ا چھی طرح سے جانتے ہیں وہ میڈیا رپورٹس سے متاثر نہ ہوں یہ توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ سے اس طرح کی رپورٹنگ نہیں کی جائے گی جو حساس معاملے کو کسی طرح سے بھی متاثر کرے ۔

ہم اس بولی پر کسی طرح کی اثر اندازی نہیں چاہتے ۔ ہم چیئرمین پی ٹی اے کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنارہے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ ریڈیو فریکونسی سپیکٹرم بولی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور یہ پی ٹی اے کی ڈیمانڈ کے مطابق ہے بولی کی رقم حکومتی فنڈز میں منتقل کی جائے مگر اس حوالے سے قانونی معاملات کوبھی مدنظر رکھا جائے اور اس حوالے سے ضرور ہو تو قانون سازی کی جائے اٹارنی جنرل اور درخواست گزار مشاورت کرلیں اس کیس کی مزید سماعت مئی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی ۔

ادھروفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت نے تین مرتبہ سپیکٹرم لائسنسوں کی نیلامی کا عمل شروع کرنے کی کوشیش کی تاہم اس کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.

موجودہ حکومت میں نیلامی کا سارا عمل شفاف طریقہ سے جاری ہے، آکشن کروانا پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی ذمہ داری ہے ،نیلامی کے عمل میں وزارت خزانہ یا اپنے ذاتی اثر و نفوذ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، حکومت کو پانچ لائسنسوں کی فروخت سے 1.3 ارب ڈالرز سے زائد آمدن حاصل ہوگی۔

گزشتہ روز وزارت خزانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفا قی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ تھری جی اور فور جی کی نیلامی کا سارا نظام آن ٹریک ہے، گزشتہ حکومت نے تین مرتبہ سپیکٹرم لائسنسوں کی نیلامی کا عمل شروع کرنے کی کوشیش کی تاہم اس کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سپیکٹرم لائسنسوں کی نیلامی کا ارادہ کیا اور اس حوالے سے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا اور موجودہ حکومت میں نیلامی کا سارا عمل شفاف طریقہ سے جاری ہے.

انہوں نے نیلامی کے عمل میں وزارت خزانہ یا اپنی جانب سے کسی اثر و نفوذ کے استعمال کی بھر پور تردید کرتے ہوئے کہا کہ آکشن کروانا پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی ذمہ داری ہے جس کو وہ بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔

تھری جی اور فور جی سپیکٹرم نیلامی پر مزید وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے بولی کے لئے کم از کم آغازی ہدف 1.3 ارب ڈالرز ر کھا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آکشن کے عمل میں وزارت خزانہ یا ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اس عمل کو پی ٹی اے مکمل کروا رہا ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی خبررساں ادارے کی خبر بے بنیاد ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو پانچ لائسنسوں کی فروخت سے 1.3 ارب ڈالرز سے زائد آمدن حاصل ہوگی ، اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار نے بتایا کہ تھری جی کے تین عدد لائسنسوں کی نیلامی کے لئے ابتدائی بولی 291 ارب ڈالرز جبکہ فور جی کے دو عدد لائسنسوں کی فروخت کے لئے بھی یہی رقم طے کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو سپیکٹرم لائسنسوں کی نیلامی کے حوالے سے نہایت مثبت اُمیدیں ہیں۔