3 نومبر کو ایمرجنسی سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی تھی، پرویز مشرف ، ایمرجنسی کا نفاذ حکم نامے میں شامل سول اور فوجی حکام کے مشورے سے کیا، سابق صدر کا اپنے وکلا کے ذریعے جاری بیان،پرویز مشرف کے وکیل تمام ملزمان کا ٹرائل 1956ء سے شروع کرنے اور تین نومبرکے اقدامات میں شریک شخصیات کو بھی شامل تفتیش کرنے کی استدعا، خصوصی عدالت کا قیام صرف اس مقدمہ کے ٹرائل کے لئے عمل میں لایا گیا ہے، عدالت نے استدعا مسترد کر دی،عدالت چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی تقرری کے خلاف درخواست کامحفوظ فیصلہ 18اپریل کو سنائے گی،اسلام آباد ہائیکورٹ میں پرویز مشرف کے مقدمے میں بیرونی مداخلت بارے فوجداری اپیل دائر،مشرف کا خارجی مددگار عدالت سے باہر‘ فریقین میں سمجھوتے کیلئے کوشاں ہے‘ درخواست گزار

بدھ 16 اپریل 2014 06:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔2014ء)پرویز مشرف نے کہا ہے کہ انھوں نے تین نومبر کو ایمرجنسی سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی تھی،اقدام سول اور فوجی حکام کے مشورے سے کیا،اپنے وکلا کے ذریعے جاری بیان میں پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ان کے وکیل ابراہیم ستی نے نظرثانی کیس میں ایمرجنسی کے نفاذ پر جو موقف اختیارکیا انھوں نے اس کی ہدایت نہیں دی تھی سچ یہ ہے کہ 3نومبر کو ایمرجنسی سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی۔

ایمرجنسی کا نفاذ حکم نامے میں شامل سول اور فوجی حکام کے مشورے سے کیا۔ پرویزمشرف نے کہا کہ ایمرجنسی کی قومی اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے توثیق کی تھی۔پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے ایک وضاحتی بیان سپریم کورٹ میں داخل کردیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بطور آرمی چیف ایمرجنسی کے نفاذ کا صدابدیدی استعمال ان کی یعنی ابراہیم ستی کی قانونی سمجھ بوجھ تھی۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کی ایڈوائس پر ایمرجنسی کے نفاذ کے عدالتی سوال پر جواب پرویز مشرف کی ہدایت نہیں تھی۔ابراہیم ستی نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کی اس وضاحت کو رکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ادھرغداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے خصوصی عدالت پر زوردیاہے کہ آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کرنے والے تمام ملزمان کا ٹرائل 1956ء سے شروع کیا جائے اور تین نومبر 2007کے اقدامات میں پرویز مشرف کے ساتھ شریک دیگر شخصیات کو بھی شامل تفتیش کیا جائے کیونکہ صرف ایک شخص کا ٹرائل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے ٹیم کے رکن حسین اصغر نے اختلافی نوٹ لکھا تھا جو خصوصی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، پراسکیوشن خصوصی عدالت کو بتائے کہ اختلافی نوٹ چھپانے کا کیا مقصد تھا جبکہ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے وکیل صفائی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ خصوصی عدالت کا قیام صرف اس مقدمہ کے ٹرائل کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔

خصوصی عدالت مقدمہ کے چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی تقرری کے خلاف درخواست محفوظ کیا گیا فیصلہ 18اپریل کو سنائے گی۔منگل کے روز غداری مقدمہ کی سماعت جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں وفاقی شرعی عدالت میں کی۔سماعت شروع ہوئی تو پرویز مشرف کے نئے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو کر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق فیصلہ ابھی تک نہیں سنایا گیا، 27مارچ کے حکم میں عدالت نے لکھا شہادت شروع ہونے سے پہلے فیصلہ سنایا جائے گا تاہم فیصلے جاری نہیں کیا گیاجس پرمقدمہ کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ انہیں اس کا نوٹس ہی نہیں ہوا جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ انہیں نوٹس ہو چکا ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دلائل کے دوران ان دونوں کا موقف سامنے آ جائے گا، پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق 18 اپریل کو فیصلہ سنادیں گے۔جس کے بعد وکیل صفائی فروغ نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کے ساتھ 3 نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ میں شریک دیگر افراد کو مقدمے میں شامل کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کی جائے،عدالت نے مشرف کی حاضری سے متعلق تمام درخواستیں غیر موثر ہونے کے باعث نمٹا دی ہیں مگر اس کے علاوہ ڈیفنس ٹیم نے مشرف کو حاضری سے مستقل استثنیٰ کی درخواستیں دائر کی تھیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ خصوصی عدالت ایکٹ کی دفعہ 6 ون سے متعلق ترمیم ختم ہو چکی ہے، اس سے متعلق درخواست کی سماعت کر لی جائے، فروغ نسیم نے کہا کہ اس کے لیے ابھِی میری تیاری نہیں، عدالت نے دیگر افراد کو مقدمے میں شامل کرنے کی درخواست پر فروغ نسیم کو دلائل کی اجازت دے دی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام پر صرف ایک ملزم کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، تین نومبر کے نوٹیفکیشن میں جن افراد سے مشاورت کا ذکر ہے ان کو نوٹس جاری کرکے ٹرائل کیا جائے کیونکہ ان اقدامات میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جنہوں نے نوٹیفکیشن تیار کرا کر اس پر عمل کرایا، فروغ نسیم نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ میں ان افراد سے انکوائری کا کوئی ذکر نہیں اور ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی سامنے نہیں لائی گئی جبکہ انکوائری ٹیم کے ایک رکن حسین اصغر نے اختلافی نوٹ لکھا جسے شامل نہیں کیا گیا، استغاثہ بتائے یہ نوٹ چھپانے کا مقصد کیا ہے، فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت تحقیقاتی رپورٹ اور اختلافی نوٹ کی نقل فراہم کرنے کا حکم دے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ شکایت کا انحصار تحقیقاتی رپورٹ پر ہے جو ریکارڈ پر نہیں لایا گیا، فروغ نسیم نے کہا کہ 3نومبر 2007 کا ایمرجنسی فرمان گزٹ نوٹیفیکیشن ہے جس میں مشورہ دینے و الے افراد کے عہدوں کا ذکر ہے۔ یہ عدالتی ریکارڈ میں بھی ہے کہ اب قانونی بوجھ استغاثہ پر ہے جسے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ سب لوگ شامل نہیں تھے، فروغ نسیم نے کہا کہ 3نومبر کی کارروائی کے حوالے سے جو بھی شواہد ہیں انہیں منظرعام پر لانا استغاثہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

خصوصی عدالت ایکٹ کی روشنی میں تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ کرے،آئین کے تحت آرٹیکل 6 کی کارروائی 23 مارچ 1956 سے ہونی ہے کیونکہ 1973کے آئین پاکستان کا آرٹیکل 25کسی سے امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ یہ 23مارچ 1956سے آئین شکنوں کے خلاف کارروائی کرکے تاریخ رقم کریں جس پر عدالتی سربراہ نے کہا کہ اس عدالت کے آئین شکنی کے تمام مقدمات کا نہیں بلکہ تین نومبر 2007ء کے اقدامات کے ٹرائل کا اختیار حاصل ہے اور عدالت صرف اسی مقدمہ کا ٹرائل کرنے کا اختیار رکھتی ہے،آرٹیکل 19اے کے تحت اطلاعات تک رسائی بنیادی حق ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ استغاثہ تحقیقاتی رپورٹ اور اختلافی نوٹ خفیہ رکھ کر آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے جوابی دلائل میں کہا کہ رپورٹ کا حصول ملزم کا حق ہوا تو ضرور فراہم کریں گے،اس حوالے سے قانون کا جائزہ لینا ہوگا، اکرم شیخ نے کہا کہ دیگر افراد کے خلاف مقدمے کے حوالے سے عدالت 7 مارچ کو فیصلہ دے چکی ہے،عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریکارڈ پر کسی اور کے خلاف شواہد آئے تو غور کیا جائے گا، اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ نکتہ مقدمے کی کارروائی کے دوران دیکھا جائے گا۔

خصوصی عدالت ہائیکورٹ نہیں لہذا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561 کا اطلاق نہیں کرسکتی، خصوصی عدالت ایکٹ کی دفعہ 5 کے تحت وفاقی حکومت صرف تین دستاویزات مہیا کرنے کی پابند ہے، ان دستاویزات میں شکایت ،الزامات کی تفصیل اور گواہان کی فہرست شامل ہے، اکرم شیخ نے کہا کہ حکومت جے آئی ٹی کی رپورٹ دینے کی پابند نہیں،جس تحقیقاتی افسر کی اختلافی نوٹ کا حوالہ دیا گیا وہ گواہان میں شامل ہیں، اس افسر کو پیش کریں گے وہ اپنی رپورٹ بھی لائے گا اور فروغ نسیم ان پر جرح بھی کرسکیں گے،رجسٹرار نے کمپلینٹ کا قانون کے مطابق جائزہ لے کر ہی کارروائی آگے بڑھانی ہے، اکرم شیخ نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ وکلائے صفائی کو نہیں دی جائے گی البتہ عدالت کے مانگنے پر عدالت کو دوں گا، پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے جہاں اکرم شیخ فروغ نسیم کے دلائل پر تحریری جواب جمع کروائیں گے۔

ادھرایک فوجداری اپیل میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی توجہ سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے میں مبینہ بیرونی مداخلت پر دلائی گئی ہے۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کا ایک خارجی مددگار عدالت سے باہر فریقین میں سمجھوتے کیلئے کوشاں ہے اور خصوصی عدالت کی کارروائی اسی کے نسخے پر چل رہی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سابق صدر گذشتہ کئی برس سے اپنے مددگار کیساتھ سیاسی سودے بازی میں ملوث رہی ہیں اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود انہیں اس مددگار کی مسلسل تائید و حمایت حاصل رہی ہے۔

صدارت سے استعفے کے بعد ان کے مابین بدستور رابطہ رہا ہے۔ اس مددگار کی منشاء کے مطابق جاری مقدمہ سزائے موت کی بجائے عمر قید پر منتج ہوگا البتہ دکھاوے کی سزا بھی صدارتی معافی کے آرٹیکل 45 کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ وفاقی حکومت اعلانیہ کہہ رہی ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ جنرل مشرف کی بریت کیخلاف اپیل سے گریز کیس جائے گا۔

اپیل میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی بریت قوم سے ایک مہنگا مذاق ہوگا کیونکہ وفاق اب تک ان کے حفاظتی اقدامات پر 20 کروڑ سے زائد رقم صرف کرچکا ہے۔ درخواست شاہد اورکزئی نے زور دے کر کہا کہ خصوصی عدالت کی تمام تر کارروائی کی اصل قانونی ذمہ داری اسلام آباد ہائیکورٹ پر ہی آئے گی کیونکہ جب تک ہائیکورٹ سزائے موت پر مہر نہیں لگائی اس کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں ہوسکتی۔

اپیل پرویز مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کیلئے دائر کی گئی تاکہ قومی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے پر سابق صدر پر گرفت کی جائے۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے بقلم خود درخواست اس بناء پر رد کردی کہ درخواست گزار فریق مقدمہ نہیں ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ غداری کے مقدمے کا اصل مقصد تو آئین کا دفاع ہے جبکہ خصوصی عدالت وفاقی کی سہولت پر عمل پیراء ہے لہٰذا اسے فرد جرم میں بڑے جرم کے اضافے اور اس الزام کی پراسیکیوشن کی ہدایت کی جائے تاآنکہ عدالتی کارروائی معطل رکھی جائے۔