کالعدم تحریک طالبان کے دو گروہوں میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے،خان سید سجناں جنوبی وزیرستان کی عمارت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جس سے ہمیں اختلاف ہے،حاجی داؤد،مُلا عمر کی محسود کمانڈروں میں جنگ بندی اور اختلافات کے خاتمے کیلئے دعاکی اپیل،حکومت کی جانب سے تاحال کوئی عسکری قیدی نہیں چھوڑا گیا،پچیس قیدیوں کی چھان بین مکمل ہوچکی ، ہم اپنے ساتھ لے کر جا کر طالبان کے حوالے کرینگے،مولانا یوسف شاہ،قوم امن چاہتی ہے ،امن جنگ سے نہیں بات چیت سے آئے گا،پروفیسر ابراہیم

منگل 15 اپریل 2014 06:38

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15اپریل۔2014ء)کالعدم تحریک طالبان کے دو گروہوں میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے،حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان حاجی داؤد کا کہنا ہے کہ خان سید سجناں جنوبی وزیرستان کی عمارت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان گروپ کے حکیم اللہ محسود گروپ اور ولی الرحمان گروپ میں اختلافات ہیں،حکیم اللہ گروپ کی سربراہی مقامی کمانڈر شہریار کر رہے ہیں جبکہ ولی الرحمان گروپ کی قیادت ولی الرحمان کے جانشین خان سید سجناں کر رہے ہیں۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان حاجی داؤد محسود نے الزام عائد کیا کہ خان سید سجناں جنوبی وزیرستان کی عمارت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں،تاہم ان کے گروپ کو خان سید سجناں کے قبضہ کے اقدام سے بھرپور اختلاف ہے،حاجی داؤد کا کہنا ہے کہ انہیں ملافضل اللہ کی قیادت پر اعتماد ہے،اگر وہ جنوبی وزیرستان کا متفقہ امیر طے کر دیں تو ان کے گروپ کو قبول ہوگا،میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے متحارب گروہوں میں حالیہ تصادم میں اب تک50کے قریب ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

(جاری ہے)

شمالی وزیرستان میں سربراہ افغان طالبان ملا محمد عمر کی جانب سے پمفلٹس تقسیم کئے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ محسود قبائل میں شدید اختلافات اور جنگ جاری ہے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ محسود کمانڈروں میں جنگ بندی اور اختلافات کے خاتمے کیلئے دعائیں کریں۔ جبکہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ قوم امن چاہتی ہے جو جنگ سے نہیں بات چیت سے آئے گا،کچھ سیاسی جماعتیں جعلی وصیت نامے سے قیادت چلا رہی ہیں،آئین میں اصلاح کرلی جائے تو طالبان تسلیم کرلیں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ قوم امن چاہتی ہے اور امن کبھی بھی کسی آپریشن کے ذریعے نہیں آیا،آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں،اس کا واحد حل مذاکرات ہیں،انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں مشکلات ہیں لیکن قوم جلد خوشخبری سنے گی،قوم ایکشن نہیں مذاکرات کے ذریعے امن چاہتی ہے،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سابقہ پالیسیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،سابقہ پالیسیوں کو تبدیل کرکے ہم نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز دی تھی،انہوں نے کہا کہ آئین میں اصلاحات کی تجاویز کثرت رائے سے رد کردی گئیں،آئین کی اصلاح بہت ضروری ہے اگر آئین میں اصلاح کرلی جائے تو طالبان آئین کو تسلیم کرلیں گے،مذاکرات صرف آئین کو تسلیم کرنے والوں سے ہی ہوں گے۔

ادھر طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین ڈیڈلاک کی افواہیں ایک سازش کے تحت پھیلائی جارہی ہیں اور ان میں وہ عناصر ملوث ہیں جو نہیں چاہتے کہ مذاکرات کامیاب ہوں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے تخت نصرتی میں حجرہ اقبال اخوند میں ایک پارٹی تقریب میں میڈیا نمائندوں کو پریس بریفنگ کے دوران کیا، اس موقع پر اقبال اخوند نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت جمعیت علمائے اسلام س میں شمولیت کا اعلان کیا اور ہر محاذ پر پارٹی کیلئے قربانی دینے کا اعادہ ظاہر کیا، مولانا یوسف شاہ نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے تاحال کوئی عسکری قیدی نہیں چھوڑا گیا تاہم ہمیں جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق پچیس قیدیوں کی چھان بین مکمل ہوچکی ہے جن کو ہم اپنے ساتھ لے کر جا کر طالبان کے حوالے کرینگے، آرمی اور حکومت کے مابین مذاکرات یا طالبان کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں اور دونوں ایک صفحے پر ہیں.

آرمی چیف کے بیان کو میڈیا نے غلط انداز میں لیا، طالبان اور حکومت دونوں جنگ کے حق میں نہیں اور دونوں امن چاہتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ سارے کے سارے عسکری گروپ ٹی ٹی پی کے کنٹرول میں ہے اور جنگ بندی کے بعد جو دہشت گردی ہوئی اس میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن مذاکرات بارے اب ہمارے طریقہ کار پر راضی ہوچکے ہیں اور وہ اب ہمارے حق میں ہی مسلسل بیانات دے رہے ہیں جو نیک شگون ہے، انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کی طوالت کا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے کوئی تعلق نہیں۔