ٹیکس چوری وآمدنی چھپانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور آمدنی کے مطابق ٹیکس کی وصولی کیلئے قانون سازی کا عمل شروع،ایف بی آر کو ان لوگوں کے بنک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل ہوجائے گی،اسلام آباد میں بڑی آمدنی اور زیادہ بیرونی دورے کرنیوالوں کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا کام شروع، ٹیکس ادائیگی میں وفاقی دارالحکومت سب سے پیچھے ہے،اکثر افراد پیسہ ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے اور غلط معلومات مہیا کرتے ہیں،ترجمان ایف بی آر، پوٹینشل کے حوالے سے کوئی بھی شہر یا علاقہ اپنے حصہ کا مکمل ٹیکس ادا نہیں کررہا،بھارت سے ٹیکس معلومات معاہدے کی عدم موجودگی کا نقصان دونوں ممالک کو ہورہا ہے‘فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر اِن لینڈ پالیسی شاہد حسین اسد کا خصوصی انٹرویو

پیر 14 اپریل 2014 06:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14اپریل۔2014ء)فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ٹیکس چوری وآمدنی چھپانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان سے آمدنی کے مطابق ٹیکس کی وصولی کیلئے قانون سازی کا عمل شروع کر دیا ہے جس سے ان لوگوں کے بنک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل ہوگی جبکہ اسلام آباد میں بڑی آمدنی اور زیادہ بیرونی دورے کرنیوالوں کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے اور ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں تعاون کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت سب سے پیچھے ہے۔

اکثر افراد پیسہ ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے اور غلط معلومات مہیا کرتے ہیں،کراچی اور لاہور نسبتاً بہتر ہیں تاہم مجموعی طور پر پوٹینشل کے حوالے سے کوئی بھی شہر یا علاقہ اپنے حصہ کا مکمل ٹیکس ادا نہیں کررہا۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز خبر رساں ادارے کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر اِن لینڈ پالیسی اور ترجمان شاہد حسین اسد کا کہنا تھا کہ اگر عوام اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے بروقت اپنے ٹیکسوں کی ادائیگیاں یقینی بنائیں اور رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی سے رجسٹر کروائیں تو ملک میں عام آدمی کیلئے ٹیکس ادائیگی کی شرح جلد نیچے لائی جاسکتی ہے تاہم اس کے لئے عوام کا تعاون اولین شرط ہے۔

ترجمان ایف بی آر نے بتایا کہ دنیا بھر میں بینکنگ سیکرٹ انفارمیشن کا رجحان بتدریج ختم ہورہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں بھی کام جاری ہے ایف بی آر بھی قانون سازی کے عمل میں ہے جس سے وہ ان لوگوں کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی کر سکے گا جو نیشنل ٹیکس نمبر نہیں رکھتے یا ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے۔

ایف بی آر کی جانب سے کی گئی اصلاحات کے مطابق اب جس اکاؤنٹ میں ایک ماہ میں دس لاکھ روپے سے زیادہ رقم جمع ہوگی اس کو ایف بی آر خود دیکھے گا اسی طرح اگر کسی کریڈٹ کارڈ سے ایک ماہ میں ایک لاکھ سے زیادہ رقم صرف ہوگی تو اس کی معلومات بھی ایف بی آر کو مہیا ہوسکے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد میں ان افراد کی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں جو مالی طو رپر انتہائی مضبوط ہونے اور وقتاً فوقتاً بیرون ممالک دورے کرنے کے باوجود اپنبے حصہ کا ٹیکس ادا نہیں کرتے جلد ہی ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جن ممالک کے ساتھ ٹیکس معلومات کے تبادلے کے معاہدے نہیں ان کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشش جاری ہے جبکہ کچھ ممالک جن کے ساتھ پہلے سے معاہدے موجود ہیں ان کے ساتھ ان معاہدوں کو مزید موثر اور مضبوط بنانے کے حوالے سے بات چیت کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے خطے کے ممالک بالخصوص بھارت کے ساتھ ایسے کسی معاہدے کی عدم موجودگی کا نقصان دونوں ممالک کو ہورہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے عوام کی ایک بڑی تعداد ایک دوسرے کے ملکوں میں کاروبار کررہی ہے مگر ٹیکس معلومات کے معاہدے کی عدم موجودگی سے ایک دوسرے کے ممالک میں بینک اکاؤنٹس رکھنے والوں کی طرف سے ٹیکسوں کی چوری سے ایک دوسرے کے کرپٹ و بدعنوان افراد کو ہی فائدہ ہورہا ہے ۔

شاہد حسین اسد کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بہتر اور ان میں اضافہ کے بعد ٹیکس معلومات کے تبادلے کسی معاہدے کی شدید ضرورت ہے جس سے دونوں ممالک اپنے ٹیکس چوروں پر ہاتھ دال سکیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان غیر قانونی تجارت اور سمگلنگ کے ذریعے کافی غیر قانونی آمدن پیدا کی جارہی ہے تاہم اس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان ٹیکس معلومات کے تبادلے کے لئے معاہدے کا ہونا ضروری ہے۔

شاہد حسین اسد نے بتایا کہ فروری 2011 ء میں جب معروف پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کو نئی دہلی میں اندرا گاندھی ائیرپورٹ پر بڑی مقدار میں غیر قانونی کرنسی غیر قانونی طور پر رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تو پاکستانی متعلقہ حکام نے بھارت سے اس حوالے سے معلومات کے تبادلے کی درخواست کی جس پر بھارتی حکام نے دونوں ممالک میں ٹیکس معلومات کا کوئی باہمی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے معلومات کے تبادلے سے معذرت کرلی۔

ترجمان ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں تعاون کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت سب سے پیچھے ہے جہاں اکثر افراد پیسہ ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اگر کریں بھی تو غلط معلومات مہیا کرکے اصلی سے نہایت کم ٹیکس کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔

اس حوالے سے بڑے شہر کراچی اور لاہور نسبتاً بہتر ہیں تاہم مجموعی طور پر پوٹینشل کے حوالے سے کوئی بھی شہر یا علاقہ اپنے حصہ کا مکمل ٹیکس ادا نہیں کررہا جس کی بڑی وجہ پاکستانی عوام میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے رجحان کی شدید کمی ہے جبکہ دوسری صورت میں وہ اپنی اصل آمدنی اور اس پر واجب الادا ٹیکس کی صحیح معلومات دینے سے کتراتے ہیں اور کم رقم پر ٹیکس ادا کرکے گلو خلاصی کرالیتے ہیں ۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ سیلز ٹیکس گوشوارے صحیح طور پر جمع کرانا شروع کردیں تو جلد ہی سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے میں مدد ملے گی یہی حساب دیگر ٹیکسوں کے ساتھ بھی ہے۔