مسلم لیگ (ن ) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں دوریاں بڑھ گئیں، متحدہ دینی محاذ قربت اختیار کرگئی،جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وفاقی وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیدیا،اقتدار کے طلب گار کبھی نہیں رہے، 4ماہ سے وفاقی حکومت سے مختلف قومی ایشوز پر اختلافات تھے، قومی داخلی سلامتی پالیسی، تحفظ پاکستان بل، حکومت طالبان مذاکرات سمیت کئی قومی امور پر اعتماد میں نہیں لیاگیا، اب گیند ن لیگ کے کورٹ میں ہے، مذاکرات کیلئے جے یو آئی (ف) کے دروازے کھلے ہیں،ترجمان جان اچکزئی ، مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا امجد خان نے استعفوں کی تردید کردی،اختلافات ضرورہیں فیصلہ مجلس شوریٰ میں کیا جائیگا،مولانا امجد خان ،جمعیت علمائے اسلام (ف) اہم اتحادی ہے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے،اتحادی جماعت کے تحفظات دور کرینگے،ملک رفیق رجوانہ

ہفتہ 12 اپریل 2014 06:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12اپریل۔2014ء)مسلم لیگ (ن ) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں دوریاں بڑھ گئیں، متحدہ دینی محاذ قربت اختیار کرگئی،جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وفاقی وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیدیا، ترجمان جان اچکزئی نے کہاہے کہ اقتدار کے طلب گار کبھی نہیں رہے، 4ماہ سے وفاقی حکومت سے مختلف قومی ایشوز پر اختلافات تھے، قومی داخلی سلامتی پالیسی، تحفظ پاکستان بل، حکومت طالبان مذاکرات سمیت کئی قومی امور پر اعتماد میں نہیں لیاگیا، اب گیند ن لیگ کے کورٹ میں ہے، مذاکرات کیلئے جے یو آئی (ف) کے دروازے کھلے ہیں جبکہ مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا امجد خان نے استعفوں کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ اختلافات ضرورہیں فیصلہ مجلس شوریٰ میں کیا جائیگا، حکومت نے ہماری ترجیحات پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو کوئی بھی آپشن استعمال کرسکتے ہیں، حکومت جمعیت سے کئے گئے معاہدہ کی پاسداری کرے، سینیٹ سے تحفظ پاکستان بل منظور ہونا آسان نہیں ہوگا، ادھر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ملک رفیق رجوانہ نے کہاہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اہم اتحادی ہے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے،اتحادی جماعت کے تحفظات دور کرینگے۔

(جاری ہے)

باوثوق ذرائع نے ” خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ مسلم لیگ ن جوکہ وفاق کی حکمران جماعت ہے اسکے اپنی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) سے اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں اور معاملات نو ریٹرن پوائنٹ تک جا پہنچے ہیں ۔معتبر ذرائع نے بتایا کہ حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور حکومت میں اختلافات نے جنم لے لیا جب ن لیگ کے وعدوں کے باوجود جے یو آئی (ف) کے جرگہ میکنزم کی بجائے کمیٹی کے ذریعے مذاکرات کوترجیح دی جس پر جے یو آئی (ف) نے تحفظات کا اظہارکیا کچھ عرصہ بعد ن لیگ نے جمعیت کو منا کر وفاقی کابینہ کا حصہ تو بنالیا مگر تاحال وزارتوں کے قلمدان نہ سونپے گئے ذرائع نے بتایا کہ چونکہ جمعیت جن وزارتوں کی طلب گار تھی حکومت وہ دینے سے قاصر تھی ۔

قومی اسمبلی کے نویں اجلاس میں قومی داخلی سلامتی پالیسی کی اچانک پیش کرنے پر بھی جمعیت اپنی اتحادی سے نالاں ہوگئی کہ انہیں ایک مرتبہ پھر نظر انداز کردیاگیا جبکہ مسلسل حکومت طالبان مذاکرات پر ان کے سیاسی حریف مولاناسمیع الحق کو اہمیت دی جارہی تھی اور ایوان وزیراعظم میں میاں نوازشریف اور جمعیت علمائے اسلام(س) ہونے والی ملاقات پرمولانافضل الرحمن بہت برہم ہوگئے جس پرانہوں نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار ملاقات کرکے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور انہیں مرتبہ پھر حکومت کی جانب سے سب اچھا کی یقین دہانی کرائی گئی مگر قومی اسمبلی کے دسویں اجلاس میں تحفظ پاکستان بل پیش کردیاگیا اور جے یو آئی(ف) کے تحفظات کے باوجود اسے کثرت رائے سے منظور بھی کرلیاگیا جس پر جمعیت کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے حکومت مخالف جماعت مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت سے ملاقات کی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور قائد ایم کیو ایم الطاف حسین سے بھی رابطے بھی کئے ہیں۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ چونکہ حکومت طالبان مذاکرات میں متحدہ دینی محاذ نوازحکومت کے قریب ہوگیاہے اور اسی سلسلے میں اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی کو جھنگ سے کامیاب کرانے میں بھی کردار ادا کیاگیاہے اس لئے اب ن لیگ بھی جے یو آئی (ف) سے پیچھا چھڑانے میں عافیت سمجھ رہی ہے کیونکہ اسے دینی جماعتوں کا کور متحدہ دینی محاذ کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے فراہم کردیاہے۔

جمعہ کے روز اپنے ایک نیٹ بیان پرمولانافضل الرحمن کے ترجمان جان اچکزئی نے کہاہے کہ اقتدار کے طلب گار کبھی نہیں رہے، 4ماہ سے وفاقی حکومت سے مختلف قومی ایشوز پر اختلافات تھے ۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی، تحفظ پاکستان بل، حکومت طالبان مذاکرات سمیت کئی قومی امور پر اعتماد میں نہیں لیاگیاجس پر علیحدگی کا فیصلہ کیاگیا۔ ترجمان کے مطابق اب گیند ن لیگ کے کورٹ میں ہے چاہے وہ استعفے منظور کرلے یا پھر مذاکرات کرے ، جمہوریت میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور مذاکرات کیلئے جے یو آئی (ف) کے دروازے کھلے ہیں ۔

اس سلسلے میں جب ”خبر رساں ادارے“ نے سعودی عرب میں مولانا عبدالغفور حیدری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ مرکزی قیادت ملک سے باہر ہے اس لئے اتنا بڑا فیصلہ صرف ایک بیانیے پر نہیں کیا جاسکتا اس بات کا فیصلہ جماعت کی مجلس شوریٰ کریگی اور باقاعدہ مشاورت کی جائیگی۔ اس سلسلے میں ”خبر رساں ادارے“ نے مزید تفصیلات کیلئے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا امجد خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اختلافات ضرور ہیں مگر اتنا بڑا فیصلہ کوئی ایک شخص نہیں کرسکتا اس کیلئے پہلے مشاورت ہوتی ہے جمعیت علمائے اسلام ایک سنجیدہ سیاسی جماعت ہے ، استعفے تو ہر وقت مو لا نا فضل الرحمن کی جیب میں ہیں ، استعفوں یا حکومتی بنچوں سے علیحدگی کا فیصلہ پا رٹی کے اجلاس میں ہو گا اس حوالے ابھی تک کو ئی اجلاس نہیں ہو اہے مو لا ناامجد نے مزیدکہاکہ مو لا نا فضل الرحمن ہر آپشن کے حوالے سے تمام اختیار ات مو جود ہیں انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے حکومت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ ایک معاہدے کی بنیاد پر کیا تھا ہم اس معاہدے پر عمل در آمد چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ ملک میں امن کے لیئے ڈائیلاگ کا راستہ آئین پر عمل در آمد اورآزاد خارجہ پالیسی ،اسلام کے نفاذ کے لئے اسلامی نظریا تی کونسل کی سفار شات پر قانون سازی ہمارے مطا لبات میں اہم ہیں انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ حکومت جن وعدوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئی ہے ان پر عمل در آمد کرے ایک سوال کے جواب میں مو لا نا نے کہا کہ تحفظ پا کستان بل آئین اور شریعت کے منافی ہے اس بنیاد پر جے یو آئی نے مخالفت کا فیصلہ کیا ہے حکومت کو چاہیے کہ جے یو آئی اور اپوزیشن کی آواز سنے اور اس حوالے سے تحفظات دور کرے انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں یہ بل سینٹ سے منظور کرانا حکومت کیلئے مشکل ہو جا ئے گا ۔

اس سلسلے میں جب حکومت کا موقف جاننے کیلئے ”خبر رساں ادارے“نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے رابطہ کیا تو ن لیگ کے سینئر رہنما سینیٹر رفیق رجوانہ نے کہاکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ہم اتحادی جماعت اور وفاقی کابینہ میں ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اپنی اتحادی جماعت کو منانے کی بھرپور کوشش کرینگے اور ان کے تحفظات کو ن لیگی قیادت دور کرے گی۔