ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں کرپشن، کرا چی بندرگاہ پر پڑا وی ایچ ٹی پلانٹ ناکارہ ہونے کا خدشہ، جاپان کو آم برآمد نہیں ہوسکے گا،جاپان نے 3 سال قبل 16سالہ پابندی ختم کرکے آم جاپان ایکسپورٹ کرنیکی اجازت دی تھی، محدود گنجائش کا پلانٹ بھی عطیہ کیا گیاتھا جسکی تنصیب کا تاحال کوئی امکان نہیں

منگل 8 اپریل 2014 06:25

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8اپریل۔2014ء)ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں کرپشن کے سبب پورٹ پر پھنسا ہوا وی ایچ ٹی پلانٹ ناکارہ ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا کی ہائی ویلیو مارکیٹ جاپان کو اس سال بھی آم کی برآمد ممکن نہیں ہوگی۔جاپان نے تین سال قبل پاکستان پر 16سال سے عائد پابندی ختم کرتے ہوئے آم جاپان ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی تھی اس اجازت کے پیچھے سابق صدر آصف علی زرداری کی ذاتی کوششیں بھی شامل ہیں جو انہوں نے بطور سربراہ مملکت جاپان کے دورے کے موقع پر کی تھیں۔

جاپانی حکومت نے پاکستان کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر محدود گنجائش کا وی ایچ ٹی پلانٹ عطیہ کیا تھا جو کئی سال ناکارہ پڑے رہنے کے بعد فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی کاوشوں سے تین سال قبل چلایا گیا اور جاپانی ماہرین کی موجودگی میں اس پلانٹ سے پراسیس کیے گئے آم جاپانی معیار کے مطابق قرار پائے جس کے بعد جاپان نے پاکستان پر 16سال سے عائد پابندی ختم کردی۔

(جاری ہے)

پاکستانی ایکسپورٹرز کے مطابق جاپان اگرچہ حجم اور مقدار کے لحاظ سے چھوٹی منڈی ہے تاہم دنیا میں جاپان ہی وہ واحد ملک ہے جو پاکستانی آم کی سب سے زیادہ قیمت دے سکتا ہے۔ جاپان میں پاکستانی آم کو 8سے 9ڈالر فی کلو قیمت مل سکتی ہے اور مجموعی طور پر 50ٹن تک آم جاپان ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے۔ جاپانی منڈی محدود ہونے کے باوجود پاکستان کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔

جاپانی معیار پر پورا اترنے کے بعد پاکستانی آم کے لیے دنیا کے کسی بھی فائیٹو سینٹری پروٹوکول پر پورا اترنا مشکل نہیں رہا،تاہم ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کی جانے والی کرپشن کے سبب پاکستان کے لیے جاپان کی جانب سے ملنے والی منظوری سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہا۔ جاپان کو آم کی ایکسپورٹ کے لیے 30ٹن یومیہ گنجائش کا وی ایچ ٹی پلانٹ درآمد تو کرلیا گیا تاہم اس پلانٹ کی درآمد میں مبینہ طور پر بھاری کرپشن کے سبب یہ پلانٹ اب تک بندرگاہ سے باہر نہیں آسکا۔

بندرگاہ پر موسمی اثرات اور دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب کروڑوں روپے مالیت کا یہ پلانٹ ناکارہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی پلانٹ پر روز بہ روز ڈیمرج بھی عائد ہورہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پلانٹ حساس آلات پر مشتمل ہے جس کی جلداز جلد محفوظ عمارت میں منتقلی اور تنصیب بہت ضروری ہے۔ پلانٹ کی تنصیب کے لیے ابھی تک کسی جگہ کا تعین بھی نہیں کیا گیا اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے مطابق کراچی میں سپر ہائی وے یا ایئرپورٹ کے نزدیک تنصیب انتہائی موزوں ہے تاہم متعلقہ اتھارٹیز ابھی تک تنصیب کی جگہ کا تعین تو درکنار پلانٹ کو پورٹ سے بھی باہر لانے میں ناکام ہے۔

ماہرین کے مطابق اس پلانٹ کی تنصیب میں کم سے کم 4سے 6ماہ لگیں گے پلانٹ کے لیے جاپانی معیار کے مطابق خصوصی عمارت اسٹوریج اور پراسیسنگ کے جاپانی پروٹوکول کے مطابق سہولتوں کی تعمیر کرنا ہوگی۔ آم کی برآمد کا سیزن سر پر آچکا ہے اور پلانٹ کی تنصیب کا دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ پاکستان سے گزشتہ دو سال سے محدود گنجائش والے پائلٹ پلانٹ سے پراسیس شدہ آم ٹوکیو میں پاکستانی سفارتخانے کو ایکسپورٹ کیے جارہے ہیں جو سفارتخانے کے ذریعے جاپانی امرا اور خواص کو تحفے کے طور پر دیے جاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق جاپانی معززین کی جانب سے پاکستانی آم کے ذائقے اور خوشبو کو مسحور کن قرار دیتے ہوئے جلد از جلد کمرشل بنیادوں پر آم کی ایکسپورٹ پر زور دیا جارہا ہے تاہم پاکستان میں پلانٹ کی عدم تنصیب جاپان اور پاکستان کے درمیان فروٹ ڈپلومیسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہ

متعلقہ عنوان :