قومی اسمبلی میں کراچی میں آئے روز مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی‘ فاٹا کو حقوق نہ دئیے جانے پر متحدہ قومی موومنٹ اور قبائلی اراکین کا ایوان میں واک آؤٹ،منانے کیلئے جانیوالے وزیر سیفران بھی ایوان میں واپس نہ آئے،جے یو آئی (ف) کا تحفظ پاکستان بل اور جماعت اسلامی کا سعودی عرب سے پاکستانی مزدوروں کو ڈی پورٹ کرنے پر احتجاج، پیپلزپارٹی کا حکومت طالبان مذاکرات پر قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ،تحریک انصاف نے وزارت خزانہ کی سہ ماہی رپورٹ کو مسترد کردیا

جمعرات 3 اپریل 2014 06:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اپریل۔2014ء) قومی اسمبلی میں کراچی میں آئے روز مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی‘ فاٹا کو حقوق نہ دئیے جانے پر متحدہ قومی موومنٹ اور قبائلی علاقہ جات کے اراکین کا ایوان میں احتجاج‘ اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے‘ منانے کیلئے جانیوالے وزیر سیفران بھی ایوان میں واپس نہ آئے‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا تحفظ پاکستان بل اور جماعت اسلامی کا سعودی عرب سے پاکستانی مزدوروں کو ڈی پورٹ کرنے پر احتجاج‘ پیپلزپارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات پر قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے‘ تحریک انصاف نے وزارت خزانہ کی سہ ماہی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹ پیش کی گئی جسے تسلیم نہیں کرتے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں سید آصف حسنین نے نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری ہے اور سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم کے کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ڈیڈ سکواڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو بلوچستان اور بنگلہ دیش بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس کراچی میں مسخ شدہ لاشوں کا نوٹس لیں اس پر ایم کیو ایم نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا امیر زمان نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) تحفظ پاکستان بل کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ عوام کے بنیادی حقوق کیخلاف ہے۔ جماعت اسلامی کی نعیمہ کشور نے کہا کہ سعودی عرب میں مزدوروں کو ڈی پورٹ کردیا گیا ہے جوکہ زیادتی ہے۔

مزدور کی موت واقع ہوئی اور اس کی لاش تاحال ملک میں نہیں لائی گئی۔ پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ گذشتہ دور میں رینٹل پاور شروع کیا گیا اب حکومت نے اسی منصوبے کا نام تبدیل کرکے دیہی منصوبہ شروع کردیا ہے۔ اگر وہ غلط تھا تو اب کیسے ٹھیک ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے کہا کہ بیرون ملک سفارتخانے میں شناختی کارڈ بنوانے کیلئے مشنز میں اضافہ اور سعودی عرب میں نادرا کے دفاتر کی خستہ حالی پر بھی توجہ دی جائے۔

تحریک انصاف کے شہریار آفریدی نے کہا کہ وزارت پٹرولیم کرک اور ملحقہ علاقوں میں گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ فاتا سے شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر ظلم کیا جارہا ہے۔ حکومت وعدہ پورا کرکے فاٹا کی محرومیوں کا ازالہ کرے لیکن وزیراعظم ملاقات کا وقت نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہ اکہ جب تک ہماری تجاویز پر عمل نہیں کیا جاتا تب تک واک آؤٹ کرتے رہیں گے۔

پیپلزپارٹی کے عمران ظفر لغاری نے کہا کہ حکومت طالبان مذاکرات میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور سویلین کے اغواء کو حکومت کے حوالے کرنے کے حوالے سے بات کریں۔ تحریک انصاف کے اسد عمر نے کہا کہ ایوان کو جو سہ ماہی رپورٹ پیش کی گئی وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر اور جی ڈی پی 60 فیصد سے کم ہوکر گر رہی ہے۔ قبل ازیں سپیکر نے وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کو ناراض اراکین کو منانے کیلئے کہا جو ایوان سے باہر انہیں منانے کیلئے گئے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ ناراض اراکین کے نہ ماننے پر وزیر موصوف بھی واپس ایوان میں تشریف نہ لائے۔