پاکستان میں رعشہ سے متاثرہ افراد کی تعداد 40لاکھ سے زائد ہے ،2030 تک تعداد دگنی ہوسکتی ہے،طبی ماہرین

اتوار 30 مارچ 2014 07:19

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مارچ۔ 2014ء) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں رعشہ (پارکنسنز) سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 40لاکھ سے زائد ہے جب کہ عالمی سطح پر یہ تعداد 6 ملین سے تجاوز کرچکی ہے اور امکان ہے کہ 2030 تک یہ تعداد دگنی ہوسکتی ہے۔ وہ ہفتہ کے روز پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت کراچی میں تین روزہ 21ویں نیولوجی کانفرنس کے دوسرے روزسائنٹیفک سیشن سے خطاب کررہے تھے۔

نیورولوجی کانفرنس میں پاکستان بھر سے 200سے زائد نیورولوجسٹ شریک ہیں ۔کانفرنس کے دوسرے روز سائنٹیفک سیشن ، مرگی ،رعشہ ، فالج اور نفسیاتی امراض سمیت دیگر موضوعات پر سیشنز منعقد کیے گئے ۔نیورولوجی کانفرنس سے ڈاکٹر بشریٰ افروز ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ، پروفیسر ڈینیل ڈنگ ، پروفیسر ڈاکٹر رونالڈ ایف ، ڈاکٹر ٹیپو سلطان ، ڈاکٹر سرورصدیقی ، پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی ، پروفیسر ڈاکٹر رشید جمعہ ، ، پروفیسر ڈاکٹر جنید اشرف ، پروفیسر ڈاکٹر مسعود حمید خان ، پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر اور عبد المالک نے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

امریکہ سے آئے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ایرک وولٹر نے کہا کہ رعشہ کے علاج کے لیے سرجری کے دوران دماغ میں سوراخ کرکے ایک ڈیوائس ڈی برین کمیونیٹر (سی ڈی ایف) ڈالی جاتی ہے ، جو پیس میکر کی طرز پر مقناطیس کے زریعے کام کرتی ہیاور اس کے نتیجے میں رعشہ کے مرض کے دوران لرزہ پر قابو میں آجاتا ہے ۔رعشہ کا مرض 60سال کی عمر کے بعد زیادہ ہوتا ہے اور ساٹھ سال کی عمر کے ایک سو میں سے ایک فرد کو رعشہ کا مرض لاحق ہے ۔

اسی طرح 60سال سے کم عمر افراد میں ایک ہزار میں سے ایک فرد کو رعشہ کا مرض لاحق ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مرض کا انگریزی نام ایک ڈاکٹر جیمز پارکنسن سے مستعار لیا گیا ہے، جس نے 1817 میں اس مرض کے بارے میں پہلا تفصیلی مضمون لکھاتھا۔ ایک ایک تحقیق کے مطابق بڑی عمر تک کام کر نے سے ذہن فعال رہتا ہے جس سے رعشہ کے مرض سے بچا جا سکتا ہے۔جو مرد بڑی عمر تک کام کرتے رہے ان کا ذہن فعال رہا جس سے ان لوگوں کے حافظے کی کمزوری کا مسئلہ ٹل گیا۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں تقریباً سات لاکھ افراد حافظے کی کمزوری کا شکار ہیں اور ماہرین کے اندازے کے مطابق سنہ 2051 تک یہ تعداد سترہ لاکھ ہو سکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس مرض پر حکومت ہر سال سترہ بلین پاوٴنڈ خرچ کرتی ہے۔حافظے کی کمزوری دماغ میں خلیوں میں زبردست کمی کے سبب ہوتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ موروثی مرض نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس کی وجہ کا تعین کیا جاسکا ہے۔

پارکنسنز کا پچاس فی صد علاج ادویات سے اور بقیہ پچاس فی صد ایکسرسائز سے ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں اضافہ ہی ہوتا ہے تاہم درست علاج اور اچھی دیکھ بھال سے اس کی رفتا ر میں کمی آجاتی ہے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کے مرض کی تشخیص کے لیے جدید وڈیو مانیٹرنگ کی جا رہی ہے ۔ اب ای جی مشین لگاکر دماغ کے خلیوں میں تبدیلی کو دیکھا جاسکتا ہے اور مرگی کے دوروں کا فرق محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران 264افراد کی وڈیو مانیٹرنگ کی گئی جن میں سے ایک تہائی افراد کو آنے والے دورے نفسیاتی تھے اور جن دوروں کو نفسیاتی سمجھا گیا وہ مرگی کے دورے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے ایسے افراد جن کو دورے پڑتے ہوں انہیں فوری طور پر کسی اچھے معالج کو دکھایا جانا چاہیے ۔

متعلقہ عنوان :