سپریم کورٹ نے لا پتہ بازیابی کیلئے تین ہفتوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جامع رپورٹ طلب کر لی، اٹارنی جنرل نے ایف آئی آر کی کاپی عدا لت پیش کر دی ،شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ

ہفتہ 22 مارچ 2014 06:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22مارچ۔ 2014ء) سپریم کورٹ نے 35 لاپتہ افراد میں سے 12 کی بازیابی کے بعد بقیہ افراد کی بازیابی کیلئے تین ہفتوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جامع رپورٹ طلبکرلی ہے جبکہ ایک رکنی کمیشن سے بھی ایک ماہ میں رپورٹ طلب کی گئی ہے ادھر اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے ایف آئی آر کی کاپی پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مالاکنڈ تھانہ میں ایف آئی آر نمبر 11/2014 زیر دفعہ 346 دائر کردی گئی ہے جس میں کسی کو غیرقانونی اور خفیہ طور پر اٹھانے بارے بات کی گئی ہے۔

ایف آئی آر وزیر دفاع کی مدعیت میں درج کی گئی ہے‘ ایک رکنی کمیشن جسٹس (ر) میاں محمد اجمل نے بھی کام شروع کردیا ہے‘ ایک ماہ میں رپورٹ پیش کریں گے۔ عدالت نے اپنے احکامات میں کہا ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

لاپتہ افراد اور ذمہ داروں کیخلاف قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جائے۔ آئین و قانون پر عملدرآمد ریاست اور عدلیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

اگر لاپتہ افراد میں سے لوگ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جائیں تو ان کیخلاف آئین و قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج تک جتنے بھی کمیشن بنے ان کی رپورٹ جان بوجھ کر شائع نہیں کی گئی۔ یاسین شاہ صرف صوبے کا ہی نہیں وفاق کا بھی شہری ہے اسلئے اس کے حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔

یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ریاست خود آئین و قانون کی پاسداری کرے۔ ہم نے بارہاء جس بات کی جانب توجہ دلائی ہے وہ انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت میں 35 لاپتہ افراد کی بابت فوجی افسر کیخلاف تھانہ مالاکنڈ میں دائر ایف آئی آر کی کاپی پیش کی جس پر عدالت نے اطمینان کا اظہار کیا اور توقع ظاہر کی کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو منطقی انجام تک بھی پہنچائے گی اور بقیہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو بھی یقینی بنائے گی۔

ہم چاہتے ہیں کہ کسی بھی شہری کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت تین ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ جامع رپورٹ پیش کی جائے۔ یک رکنی کمیشن بھی ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے۔ادھرسپریم کورٹ میں 35 لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے بعد ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے لطیف یوسفزئی نے نائب صوبیدار امان اللہ بیگ کیخلاف دائر ایف آئی آر کی کاپی دینے سے انکار کرتے ہوئے میڈیا پر جانبداری کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ میڈیا میرے خلاف خبریں لگاتا ہے اسلئے میڈیا کو ایف آئی آر کی کاپی نہیں دوں گا جسے کاپی کی ضرورت ہے وہ سپریم کورٹ سے جاکر لے لے۔

سپریم کورٹ رپورٹرز سے بھی اے جی کے پی کے کا سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تاہم سینئر صحافیوں اور پولیس نے معاملہ رفع دفع کرادیا۔ سپریم کورٹ رپورٹرز نے عمران خان سے اے جی کے پی کے لطیف یوسفزئی کے روئیے پر ان کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :