سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود 35 لاپتہ افراد کے حوالے سے ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج نہ ہوسکا‘ عدالت نے 24 گھنٹے کے مزید مہلت دے دی، مالاکنڈ تھانے میں شکایت پہنچ چکی ہے ‘ دفعات کا فیصلہ ہونے پر مقدمہ درج کرلیا جائے گا ، اے جی کے پی کے،ادارے قانون کی پاسداری کریں گے تو اس سے ان کی بے عزتی کا پہلو نہیں نکلتا‘ جسٹس جواد،زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اب آئین و قانون کی حکمرانی ہی چلے گی،ریمارکس،اسلام آباد میں تھانہ سیکرٹریٹ نے 35لاپتہ افراد کیس میں وزیر دفاع کی تحریری شکایت پر معاملہ مالاکنڈ تھانے کو بھیج دیا،نائب صوبیدار امان اللہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا

جمعہ 21 مارچ 2014 04:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود 35 لاپتہ افراد کے حوالے سے ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج نہ ہوسکا‘ عدالت نے مقدمہ کے اندراج کیلئے وفاقی حکومت اور خیبر پختونخواہ کو 24 گھنٹے کے مزید مہلت دے دی‘ اے جی کے پی کے نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مالاکنڈ تھانے میں شکایت پہنچ چکی ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے‘ دفعات کا فیصلہ ہونے پر مقدمہ درج کرلیا جائے گا فی الحال ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی جبکہ ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ نے عدالت کو بتایا ہے کہ صبح 4 بجکر 50 منٹ پر شکایت درج کرلی گئی ہے‘ یہ ایف آئی آر نہیں صرف رپٹ روزنامچہ ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب تک سات حکم نامے ارسال کرچکے‘ شکر ہے کچھ تو پیشرفت ہوئی ‘ وفاقی حکومت 10 دسمبر 2013ء کے احکامات کے مطابق مقدمات درج کرائے‘ قانون جذبات کو نہیں دیکھتا‘ قانون کی حکمرانی اور پاسداری کرنے کو ادارے اپنے دل پر نہ لیں یہ سب کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

فوج سمیت تمام ادارے اگر قانون کی پاسداری کریں گے تو اس سے ان کی بے عزتی کا پہلو نہیں نکلتا‘ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اس ملک میں اب آئین و قانون کی حکمرانی ہی چلے گی۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ محبت شاہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل آف پاکستان پیش ہوئے اور انہوں نے وفاقی وزیر دفاع کی جانب سے تحریر کردہ شکایت کی کاپی اور رپوٹ روزنامچہ پیش کیا۔

انہوں نے بتایا کہ مالاکنڈ شکایت بھجوادی گئی ہے۔ پولیس رولز 1994,25 کے تحت مراسلہ بھجوادیا گیا ہے۔ اے جی کے پی کے نے بتایا کہ ایف آئی اے کے حوالے سے شکایت درج ہوگئی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ محبت شاہ گھر چلا گیا ہے۔ قانون جذباتی نہیں ہے ہر کوئی قانون کے تابع ہے۔ زندگی اور موت پر اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہی چلے گی۔ کسی کا اونچا نیچا ہونا نہیں ہے۔

ہمارے ذہنوں سے یہ چیز اللہ کرے نکل جائے۔ قانون کی پاسداری کرنا کسی کی بے عزتی نہیں اس کی پاسداری ہر کسی کی ذمہ داری ہے بعدازاں عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم جوکہ 10 دسمبر 2013ء کو جاری کیا گیا تھا‘ پر عمل کا گیا ہے۔ 19 مارچ کو بھی آرڈر جاری کیا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کنفرم کیا ہے کہ 35 لاپتہ افراد کے معاملے پر ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پولیس سٹیشن سیکرٹریٹ کو درخواست بھجوائی گئی تھی جس پر انہوں نے جوابی کارروائی بارے تحریری طور پر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تھانے سے کون آیا ہے‘ بتایا گیا کہ کوئی نہیں آیا تحریری طور پر بھجوایا گیا ہے۔ عدالت نے ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ کو طلب کیا اور کہا کہ آدھے گھنٹے تک اس کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے گی۔

دوران سماعت ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ عبدالرحمن نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایف آئی آر نہیں بلکہ رپٹ روزنامچہ ہے۔ اے جی کے پی کے نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ نے ایف آئی آر درج نہیں کرائی بلکہ مقدمے کے حوالے سے دفعات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب واضح ہے کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔

عدالت نے ایف آئی آر 24 گھنٹوں میں درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے (آج) جمعہ کو وفاق اور کے پی کے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ادھروفاقی دارالحکومت کے تھانہ سیکرٹریٹ نے 35لاپتہ افراد کیس میں وفاقی وزیر دفاع کی تحریری شکایت پر معاملہ مالاکنڈ تھانے کو ارسال کیا جس میں نائب صوبیدار امان اللہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے ۔تحریری شکایت وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے دستخطوں سے تھانہ سیکرٹریٹ کو ارسال کی تھی ۔

لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت یاسین شاہ وغیرہ35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں یاسین شاہ کے بھائی محبت شاہ جو ڈسٹرکٹ مردان تحصیل کاٹلنگ کا رہائشی ہے ۔انہوں نے سپریم کورٹ میں 2010 ء میں ایک درخواست دی تھی کہ ان کا بھائی لاپتہ ہے ۔عدالت کے دوران سماعت سپرنٹنڈنٹ مالاکنڈ حراستی مرکز نے ایک سرکاری خط کے ذریعے پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کو بتایا کہ 35 لاپتہ افراد کو حراستی مرکز سے نائب صوبیدار امان اللہ لیکر گیا ہے جن میں سے28 ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکے ہیں ان میں سے کچھ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا مگر بڑی تعداد ابھی تک لاپتہ ہے۔

مالاکنڈ حراستی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ پر حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دیگر سے پوچھ گچھ کی کوشش کی مگر ان افراد کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔سپریم کورٹ نے اپنے دس دسمبر 2013ء کے فیصلے میں درج بالا افراد کو لاپتہ افراد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔اسی روشنی میں وفاقی حکومت درخواست کرتی ہے کہ ایک باقاعدہ ایف آئی آر متعلقہ افسران کے خلاف درج کرتے ہوئے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے ۔

یہ وفاقی وزیر دفاع کا تحریری بیان تھانہ سیکرٹریٹ کو بھجوایا گیاتھا جس پر تھانہ سیکرٹریٹ نے اس خط کو مندرجات کا حوالہ دیتے ہوئے تھانہ مالاکنڈ میں درخواست بھجوائی تھی کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں امان اللہ اور دیگر کی خلاف مقدمہ درج کیا جائے کیونکہ یہی افراد یاسین شاہ اور دیگر کے لاپتہ کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہیں جس پر تھانہ مالاکنڈ نے وزیر دفاع اور تھانہ سیکرٹریٹ کے بیان کی روشنی میں روزنامچہ میں رپورٹ درج کی ہے۔تھانہ سیکرٹریٹ نے 20 مارچ صبح کو میرے ہی شکایت بھجوائی تھی۔