توقیرصادق کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ،اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناعی کالعدم قرار،قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے تمام فریقین کے دلائل سننا ضروری ہیں، سپریم کورٹ

بدھ 19 مارچ 2014 06:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19مارچ۔2014ء)سپریم کورٹ نے توقیرصادق کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات کے حوالے سے جاری کردہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناعی کالعدم قرار دے دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب حکام کو نوٹس جاری اور ان کو سنے بغیر اربوں روپے کی کرپشن کے خلاف ہونے والی تحقیقات روکی ہیں لہذا یہ فیصلے تمام قانونی تقاضے پورا نہیں کرتا۔

عدالت عدالیہ کو ہدایت کی ہے کہ عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئے بغیر دیوان پٹرولیم کی درخواست کی سماعت کی جائے اور جلد سے جلد اس کا فیصلہ کیا جائے۔ نیب کی درخواست منظور کی جاتی ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نیب حکام کو سن کر فیصلے کرے۔یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منگل کے روز جاری کیا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے تمام فریقین کے دلائل سننا ضروری ہیں جبکہ مذکورہ مقدمے میں ایسا نہیں کیا گیا ہے ۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کو سنے بغیر فیصلے دے دیا گیا ۔ہائی کورٹ کو سننا چاہیے تھا ۔کے کے آغا نے کہا کہ اوگرا کرپشن کیس میں صرف ایک معاملہ سامنے لانا تھا۔توقیر صادق ملک سے دو سال باہر رہے ہیں ان کو ہم گرفتار نہیں کر سکتے۔ وہ ضمانت پر ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ کچھ چیزیں نیب عدالت نے کرتی ہیں ۔آپ وہاں درخواست دیں آپ 25 فروری2014 کے آرڈر کے خلاف آتے ہیں ہم آپ کی درخواست سماعت کی اجازت دینے لگے ہیں ۔

بغیر نوٹس کے کیسے تحقیقات کو روکا جا سکتا ہے ہم اس آرڈر کو کالعدم قرار دیں گے۔اس طرح کے آرڈر اگر ہوئے ہیں تو اس حوالے سے ہمارے تحفظات ہیں ۔6 اور7 مارچ کے آرڈر دیکھ لیں اگر یہ وضاحت طلب نہیں تو ہم آرڈر کئے دیتے ہیں ۔علی ظفر نے کہا کہ عبوری حکمنامہ دیا گیا تھا۔4 سے5 روز گزر گئے ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ4 ،5 روز نہیں اب مہینہ ہونے والا ہے۔

انصاف تو قواعد وضوابط کو پورا کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔ابھی تک ہم نے عدالت عالیہ کا حکم کالعدم قرار نہیں دیا ۔ہائی کورٹ اتنا کرلیتا۔ایک دن کا نیب کو نوٹس دے دیتا تو کیا ہوجاتا۔اگر کوئی ویسے ہی موجود تھا تو اس کو تسلیم نہیں کر کے نیب کا ہیڈکوارٹر اتنا دور نہیں تھا۔ اسی دن بھی پراسیکوٹر جنرل نیب کو طلب کر کے فیصلہ کر سکتے تھے ۔اربوں روپے کے معاملات چل رہے ہیں اور کہہ دیا گیا کہ بغیر سنے نیب کو تحقیقات سے روک دیا گیا ۔

عدالت نے حکمنامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ فریقین کے دلائل سماعت کئے ہیں ۔درخواست گزار نے ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ کے آرڈر سے متاثر ہو کر سپریم کورٹ آئے ہیں جس میں ان کو سنا ہی نہیں گیا ور نہ ہی کوئی نوٹس جاری کیا گیا اور حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ۔نیب اس حکم سے متاثر ہوئی ہے وجوہات یہ ہیں کہ مسئلہ کافی عرصہ سے زیر سماعت ہے اور توقیر صادق دو سال بعد نیب کے ہاتھ آئے ہیں ان کے خلاف تحقیقات چل رہی تھیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا۔

25 فروری2014 کے آرڈر میں نوٹ کیا گیا ہے کہ نیب کو سنا نہیں گیا ۔توقیر صادق نے ریفرنس کو بھی چیلنج کر رکھا ہے ۔دیوان پٹرولیم اپنی درخواست میں کچھ ترمیم کرانا چاہتی تھی ۔اس دوران انہوں نے عدالت سے حکم امتناعی کی درخواست کر دی جو وضاحت طلب ہے ۔علی ظفر نے کہا کہ یہ سب نہیں لکھا ہوا ہے ۔اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کو ری پروڈیوس کررہے ہیں ۔

علی ظفر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات کا صحیح استعمال کیا ہے۔جوہات میں کہا کہ عدالت اس طرح کا حکم جاری کرنے کی مجاز تھی کیونکہ ان کے پاس درخواست زیر سماعت تھی جس کے ساتھ حکم امتناعی کی درخواست بھی لگی ہوئی تھی جس پر انہوں نے حکم امتناعی جاری کیا ۔ہائی کورٹ اس طرح کی زیر سماعت پٹیشن کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔دیوان پٹرولیم درخواست کے نکات کے بھی فیصلہ کا حصہ بنایا جاتا ہے ۔

اس لئے نیب کی درخواست سماعت کے لئے منظور کی جاتی ہے اور25 فروری2014 کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا جاری کردہ تحقیقات کے خلاف حکم امتناعی کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔امید ہے کہ ہائی کورٹ معاملہ تیزی کے ساتھ نمٹائے گی اور درخواست کے نکات اور نیب آرڈیننس کی پروویژنز کے تحت ہی فیصلہ کرے گی ۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہم اس معاملے میں آگے تحقیقات کرنا ہیں ہم ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دینا چاہیے کہ جس سے توقیصر صادق کی تحقیقات یا ٹرائل پر کسی قسم کا کوئی اثر پڑے۔اگر نیب کو کوئی بھی مسئلہ ہے تو درخواست دیں۔