تحریک طالبان کا وزیر دفاع کے بیان پر برہمی کا اظہار ، خواجہ آصف کے بیان کا مطلب ہے حکومتی کیمپ میں کنفیوژن موجود ہے ، ہم نے اپنی کمیٹی کو بطور ثبوت کچھ غیر عسکری قیدیوں کی فہرست دیدی ہے ،تحقیق حکومتی کمیٹی کا کام ہے،اگر پیش رفت ہوئی تو دیگر قیدیوں کے نام بھی پیش کر دیں گے، ترجمان شاہد اللہ شاہد کا بیان ،طالبان کا مذاکرات کے لیے ’فری پیس زون‘ کا مطالبہ کیا ہے،مولانا سمیع الحق ،طالبان نے مذاکرات سے قبل محسود علاقہ خالی کرنے کی نہ تو شرط عائد کی ہے،نہ مطالبہ کیا ہے،وفاقی وزیر داخلہ کو طالبان کی طرف کم وبیش 300 غیرعسکری افراد کی فہرست دی گئی ہے، پروفیسر ابراہیم ،مذاکرات کی جگہ کا تاحال تعین نہیں ہوا،جنوبی وزیرستان میں فی الحال مذاکرات کرانا مختلف وجوہات کی وجہ سے ممکن نہیں ،مولانا یوسف شاہ

منگل 18 مارچ 2014 06:52

اسلام آباد(رحمت اللہ شباب۔ اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18مارچ۔2014ء)کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر دفاع کے بیان کا مطلب ہے کہ حکومتی کیمپ میں کنفیوژن موجود ہے ، ہم نے اپنی کمیٹی کو بطور ثبوت کچھ غیر عسکری قیدیوں کی فہرست دیدی ہے ،تحقیق حکومتی کمیٹی کا کام ہے،اگر پیش رفت ہوئی تو دیگر قیدیوں کے نام بھی پیش کر دیں گے۔

پیر کے روز تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ایک بیان میں ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ خواجہ آصف بحیثیت وزیردفاع خفیہ حراست مراکز کی اصل تعداد اور ان کے مقام سے بھی آگاہ نہیں ہوں گے،تو ان میں موجود افراد کا ان کو کیا علم ہوسکتا ہے؟،ترجمان نے کہا کہ فاٹا،خیبرپختونخوا اور بلوچستان سمیت ملک کے ہر حصے میں سیکورٹی فورسز کے سینکڑوں خفیہ حراستی مراکز ایک حقیقت ہیں جس سے اب آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہیں،تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نام سے حکومت نے ان غیر قانونی اور غیر انسانی خفیہ مراکز اور ان کے کرداروں کو قانونی حیثیت تو دے دی ہے لیکن خواجہ آصف بتائیں کہ انہوں نے آپ کے قانون کا پاس رکھتے ہوئے اب تک کتنے گمشدہ لوگوں کو عدالت میں پیش کیا؟۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے وزیر دفاع اور وزیر اعظم کو کن لوگوں کو پیش نہ کرنے پر مقدمات قائم کرنے کی دھمکی دی تھی؟۔نجانے خواجہ آصف کن قوتوں کے اشارے پر امن مذاکرات مشن کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں؟یا حکومتی کیمپ میں کنفیوژن موجود ہے ہم نے اپنی کمیٹی کو بطور ثبوت کچھ غیر عسکری قیدیوں کی فہرست دے دی ہے ،تحقیق حکومتی کمیٹی کا کام ہے،اگر پیش رفت ہوئی تو دیگر قیدیوں کے نام بھی پیش کر دیں گے۔

ادھرکالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ’فری پیس زون‘ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں وہ بغیر کسی خطرے کے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے آ جا سکیں۔یہ بات حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی کے رکن سمیع الحق نے اکوڑہ خٹک میں بی بی سی اردو سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ابھی تو بہت سی جگہوں پر پکڑ دھکڑ ہے، فوج، ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ناکے ہیں اور طالبان آزادی سے نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔"ہم نے نے اپنی کمیٹی کو بطور ثبوت کچھ غیر عسکری قیدیوں کی فہرست دے دی ہے، تحقیق حکومتی کمیٹی کا کام ہے، اگر پیش رفت ہوئی تو دیگر قیدیوں کے نام بھی پیش کر دیں گے۔"سمیع الحق نے کہا باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد بہت سے اجلاس ہوں گے جس کے لیے ایک فری زون‘ ہونا چاہیے۔

سمیع الحق نے کہا کہ فی الوقت تو طالبان کے کئی سرکردر رکن زیرِ زمین ہیں اور وہ گرفتاریوں کے ڈر سے منظر عام پر نہیں آ سکتے۔کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے بارے میں مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں کہ ’ وہ کہاں بیٹھا ہوا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ طالبان کے امور ان کی شوریٰ چلا رہی ہے جو پندرہ سولہ ارکان پر مشتمل ہے۔

حکومت سے مذاکرات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ شوریٰ کے تین چار ارکان مذاکرات کریں گے اور مشورے کے لیے شوریٰ کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے۔مذاکرات سے قبل طالبان نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا اور ان کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

طالبان نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے اپنی کمیٹی کو بطور ثبوت کچھ غیر عسکری قیدیوں کی فہرست دے دی ہے، تحقیق حکومتی کمیٹی کا کام ہے، اگر پیش رفت ہوئی تو دیگر قیدیوں کے نام بھی پیش کر دیں گے۔

سمیع الحق نے کہا کہ ان میں ایک ایسے شخص کی بیوی بھی شامل ہے جو روز گار کی غرض سے مشرق وسطیٰ میں ہے۔دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ کوئی خواتین اور بچے زیرِ حراست نہیں ہیں۔جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان مذکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ اگر فوج کو پورا محسود علاقہ کو خالی کرنے میں مشکلات ہو تو صرف دو تحصیلیں مکین اور لدہ خالی ہو جائیں تو بھی معاملہ حل ہو سکتاہے ۔

طالبان نے مذاکرات سے قبل محسود علاقہ خالی کرنے کی نہ تو شرط عائد کی ہے۔نہ مطالبہ کیا ہے ۔ بلکہ تجویز دی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف طالبان سے مذاکرات کو کامیاب بنانے میں مخلص نظر آتے ہیں۔طالبان سے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اجمل خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔جسے انہوں نے مسترد نہیں کیا۔تاہم ابھی کوئی جواب بھی نہیں دیا۔

جوں جوں بات آگے بڑھے گی ۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلما ن تاثیر کے بیٹے کی رہائی کی بات بھی کریں گے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار طالبان ، حکومت مذاکرات کامیاب بنانے میں اہم اور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو طالبان کی طرف کم وبیش 300خواتین ، بچوں ، عمر رسیدہ اور غیرعسکری افراد کی فہرست دی ہے۔

جو بقول طالبان حکومتی حراست میں ہیں۔جب حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہوں گے۔تو دونوں فریق اپنی شرائط اور مطالبات ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے۔جن میں دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی اور تبادلہ یقینا ایک اہم ایشو ہوگا۔جبکہ جنرل ایمنسٹی کا معاملہ بھی زیر غور آئیگا۔امید ہے ایک دو روز میں حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی جگہ کا تعین ہو جائیگا۔

جس کے بعد دونوں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کی تاریخ اور وقت طے ہو جائیگی۔تاہم امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد طے ہوجائیگا۔ج

ماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے ترجمان اسرار اللہ خان ایڈوکیٹ کی طرف سے پیر کے روز المرکز الاسلامی سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد ابراہیم خان نے جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے صوبائی ذمہ داران کے المرکز الاسلامی میں ہونے والے پانچ گھنٹے تک مسلسل جاری رہنے والے ایک طویل اجلاس کے دوران طالبان اور حکومت مذاکرات میں اب تک ہونیوالی پیش رفت کے بارے میں بریفینگ اور شرکاء کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا۔

پروفیسر محمد ابراہیم خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان کی طرف سے وفاقی وزیر داخلہ کو خواتین ، بچوں اور غیر عسکری افراد کی جو فہرست ہے طالبان کمیٹی نے حوالے کی ہے۔ وہ حتمی نہیں ہے۔ اور شاید طالبان مزید افراد کی فہرست بھی ہمارے حوالے کریں۔انہوں نے کہا کہ طالبان کمیٹی نے طالبان سیاسی شوریٰ سے پوچھا تھا کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ جو فہرست انہوں نے ہمارے حوالے کی ہے۔

وہ درست ہے ۔ اور واقعی یہ لوگ حکومتی ایجنسیوں کی حراست میں ہیں؟ جس پر طالبان نے تجویز پیش کی کہ ایک غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن ان علاقوں کا دورہ کرکے یہ معلوم کر سکتا ہے۔ کہ ہماری فہرست درست ہے یا نہیں۔جن علاقوں سے یہ خواتین اور بچے یا دیگر غیر عسکری افراد اٹھائے یا غائب کیے گئے ہیں۔پروفیسر محمد ابراہیم خان نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ طالبان چاہتے ہیں کہ حکومتی ایجنسیوں کی قید میں موجود خواتین ، بچوں اور غیر عسکری افراد کو رہا کیاجائے۔

لیکن حکومت اور طالبان براہ راست مذاکرات شروع کرنے کے لئے انہوں نے اس مطالبے کو شرط کے طور پر نہیں رکھا۔پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لئے انہیں پوری قوم کی دعاؤوں اور حمایت کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو اس انداز سے کامیابی سے ہمکنار کیا جائے ۔

کہ دونوں طرف Win-Win کا معاملہ ہو۔ اور دونوں فریق جیت جائیں اور کسی کی ہار نہ ہو۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں امن قائم ہو جائے تو ترقی اور خوشی کے راستے خود بخود کھل جائیں گے۔طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ اور حکومتی کمیٹی کے درمیان ملاقات کیلئے تین مقامات زیر غور ہیں تاہم ان مقامات کے نام تاحال نہیں بتاسکتا۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رکن طالبان کمیٹی نے کہا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ٹیلیفون پر مسلسل رابطے میں ہیں۔ طالبان شوریٰ اور حکومتی کمیٹی کے درمیان ہونے والی ملاقات کیلئے تین مقامات زیر غور ہیں تاہم ان مقامات کے حوالے سے کچھ نہیں بتا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے خواتین‘ بچوں اور بزرگوں کی رہائی کی تجویز دی ہے مطالبہ نہیں کیا۔

تجاویز کا مقصد مذاکراتی ماحول کو سازگار بنانا ہے۔ ادھر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ طالبان اور حکومتی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند نے کہا کہ حکومت کے پاس طالبان کے کوئی بچے اور خواتین قید نہیں، طالبان کی جانب سے خواتین اور بچوں کی رہائی کا مطالبہ آیا لیکن کوئی فہرست نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان اور حکومتی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، مشترکہ اجلاس کے بعد ہی طالبان سے براہ راست مذاکرات کی جگہ اور تاریخ کا تعین ہوگا۔

طالبان کمیٹی کے رابطہ کار یوسف شاہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کی جگہ کا تاحال تعین نہیں ہوا،طالبان کی جانب سے قیدیوں کی فہرست وزیرداخلہ کے حوالے کردی ہے۔نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان نے مذاکرات کی جگہ کی نشاندہی کردی ہے،اتفاق رائے کیلئے کوشاں ہیں،جنوبی وزیرستان میں فی الحال مذاکرات کرانا مختلف وجوہات کی وجہ سے ممکن نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے قیدیوں کی فہرست وزیرداخلہ کے حوالے کردی ہے،فہرست پر دونوں کمیٹیوں کے اجلاس میں غور کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی سے مذاکرات کا ماحول بہتر ہوسکتا ہے یہ مطالبہ نہیں تجویز ہے،دونوں جانب ہزاروں قیدی ہیں،عسکری قیدیوں کی رہائی کا کسی نے مطالبہ نہیں کیا،انہوں نے کہا کہ آج تک قومی سطح پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور نہ ہی فائر بندی ہوئی ہے،پہلی بار ہونے والی پیشرفت نتیجہ خیز ثابت ہوگی،مذاکرات میں جیت امن کی بحالی کی صورت میں پاکستانی قوم کی ہوگی۔