عبدالرشید غازی قتل کیس‘جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بیانات قلم بند کر ا دیے ،عبدالرشید غازی کے ساتھ پرامن معاہدہ طے پاگیا تھا، وہ پانچ جولائی کو گرفتاری دینے پر آمادہ تھے،پرویزمشرف نے آپریشن کا حکم دیا‘، گواہان کے اہم انکشافات ،سانحہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے حوالے سے جماعت اسلامی کی فیکٹس فائنڈنگ کمیشن کی 200سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی جے آئی ٹی کو پیش

اتوار 16 مارچ 2014 07:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مارچ۔2014ء)پرویزمشرف کے خلاف علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنماؤں نے اپنے بیانات جے آئی ٹی کو قلم بند کرا دیئے ہیں۔جماعت اسلامی کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فرید احمد پراچہ،ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی،میاں محمد اسلم،سید بلال اور ڈاکٹر کوثر فردوس نے جے آئی ٹی کے رکن افتخار چٹھہ کو اپنے بیانات قلم بند کرائے ہیں۔

جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل فرید احمد پراچہ نے جے آئی ٹی کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”میں نے لال مسجد آپریشن رکوانے کی بھرپور کوششیں کیں،8جولائی 2007کو ہمیں میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ آج رات لال مسجد کے خلاف حتمی آپریشن کردیا جائے گا،چنانچہ ہم نے فوری کوشش کی کہ کسی طرح اس سانحہ کو روکا جائے۔

(جاری ہے)

ہم نے وزیر داخلہ سے رابطہ کیا لیکن اس نے ملاقات کرنے سے اجتناب کیا۔

پھر ہم سب ایم این ایز نے چوھدری شجاعت حسین سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ آج رات بے گناہ طلبہ و طالبات کو شہید کردیا جائے گا۔آپ حکومت کا حصہ ہیں۔کل آپ خداوند کریم کو کیا جواب دیں گے؟ ہماری اس بات پر چوہدری شجاعت حسین کے آنسو نکل آئے۔ہم نے عرض کیا کہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کو آپ کے آنسوؤں کی نہیں بلکہ آپ کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس پر انہوں نے وزیراعظم شوکت عزیز سے فون پر رابطہ کیا۔بالآخر بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ ہم کل وزیراعظم سے ملیں گے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس رات آپریشن ملتوی ہونے کی یقین دہانی بھی انہوں نے فوراََ نہیں کرائی بلکہ کہیں رابطہ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ آج رات آپریشن نہیں ہوگا“۔انہوں ن اپنے تفصیلی بیان میں مزید کہا کہ”ہم نے جید علمائے کرام کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ علامہ عبدالرشید غازی شہید سے رابطہ کریں اور مصالحت کے ذریعے اس مسئلے کو آپریشن کے بغیر حل کرائیں۔

چنانچہ جید علمائے کرام نے علامہ عبدالرشید غازی شہید سے چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں حکومتی وفد کے ہمراہ مذاکرات کئے اور دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا،میں نے چوہدری شجاعت حسین کو فون پر مبارک باد دی کہ اچھا ہوا کہ معاہدہ طے پاگیا ہے۔اس پر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور بتایا کہ معاہدہ منظوری کے لیے گیا ہے۔چونکہ پرویزمشرف نے طے کررکھا تھا کہ ہر صورت آپریشن کرنا ہے،جس سے اس کا مقصد امریکہ کو یہ تاثر دینا تھا کہ انتہا پسند اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں کہ دارالحکومت پر بھی قابض ہیں اور یہ کہ صرف میں ہی ان کے خلاف آخری اقدامات تک جاسکتا ہوں۔

چنانچہ 9جولائی کی رات طے پاجانے والے معاہدہ کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور چودھری شجاعت نے کچھ ہی دیر بعد مجھے بتایا کہ ایوان صدر نے معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔اسی اثنا میں لال مسجد کے خلاف حتمی آپریشن کا آغاز کردیا گیا“۔فرید احمد پراچہ نے جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں مزید بتایا کہ جماعت اسلامی نے سانحہ لال مسجد کے فوراََ بعد فیکٹس فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جس نے لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کیں۔

جماعت اسلامی کے فیکٹس فائنڈنگ کمیشن نے تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لال مسجد آپریشن کا مرکزی ذمہ دار پرویزمشرف کو قرار دیتے ہوئے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق ڈائریکٹر جنرل رینجرز حسین مہدی،کورکمانڈر راوالپنڈی لیفٹیننٹ جنرل طارق مجید، وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ،سیکرٹری داخلہ،بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ،آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد،آئی جی پولیس اسلام آباد،کمشنر اسلام آباد،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور دیگرکو بھی واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے جے آئی ٹی کو جماعت اسلامی کی طرف سے قائم کردہ فیکٹس فائنڈنگ کمیشن کی 200سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی پیش کی۔دوسری طرف سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کی صاحبزادی سمعیہ راحیل قاضی نے جے آئی ٹی کو اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا ہے کہ میں جماعت اسلامی کی خواتین اراکین اسمبلی کے ہمراہ علامہ عبدالرشید غازی سے مذاکرات کرتی رہی۔

علامہ عبدالرشید غازی شہید نے حکومت کی تمام شرائط مان لئے تھے اور متفقہ معاہدہ بھی طے پاگیا تھا،مگر پرویزمشرف نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے آپریشن کرنے کا حکم دیا۔سابق امیر جماعت اسلامی اسلام آباد سید بلال نے جے آئی ٹی کو اپنا بیان قلم بند کراتے ہوئے انکشاف کیا کہ” چار جولائی کو مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے بعد میں نے علامہ عبدالرشید غازی شہید سے رابطہ کیا اور انہیں اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ لال مسجد سے باہر نکل کر خود کو قانون کے حوالے کردیں ،میری کوششوں کے نتیجے میں عبدالرشید غازی آمادہ ہوگئے کہ وہ پانچ جولائی کی شام چار بجے متحدہ مجلس عمل کے اراکین اسمبلی کی موجودگی میں گرفتاری دینے کے لئے تیار ہیں۔

میں اس اہم پیش رفت سے جماعت اسلامی کے قائدین کو آگاہ کرنے کے لئے لال مسجد کے قریب واقع سرینڈر پوئنٹ سے واپس آرہا تھا کہ مجھے پولیس نے گرفتار کرلیا،میں نے عبدالرشید غازی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے حوالے سے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا۔اس لیے جب میں تھانے میں بند ہوگیا تو وہ امور جن پر ہم اتفاق کرچکے تھے اس پر کوئی اور پیش رفت نہیں کرسکا۔

اگر اس دن شام تک ہمیں موقع دیا جاتا تو عبدالرشید غازی گرفتاری دے دیتے اور آپریشن بھی ان کی گرفتاری کے بعد بند ہوجاتا۔لیکن مجھے گرفتار کرکے سارے سلسلے کو سبو تاژ کردیا گیا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہی آپریشن کرکے قتل عام کا فیصلہ کیا جا چکا تھا ،اس لیے پرویزمشرف اور اس کی حکومت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نہیں چاہتے تھے“۔جماعت اسلامی اسلام آباد کے موجودہ امیر میاں محمد اسلم نے بھی پرویزمشرف کو لال مسجد آپریشن کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے جے آئی ٹی کو بتایا کہ 3جولائی کو ات دس بجے میں نے علمائے کرام کے ساتھ چلتی گولیوں میں جامعہ حفصہ میں دونوں بھائیوں سے ملاقات کی۔

وہ تمام مطالبات جو انتظامیہ اور پولیس منوانا چاہ رہی تھی دونوں بھائی وہ مطالبات مان گئے۔میں نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جناب چوہدری محمد علی سے گذارش کی کہ پولیس اور رینجرز گھیراؤ ختم کردیں تاکہ حالات نارمل ہوجائیں مگر وہ فرماتے رہے کہ وزارت داخلہ میں اجلاس جاری ہے میں آپ کو بتاتا ہوں۔اجلاس جاری رہا مگر انہوں نے کوئی مثبت پیش رفت کرنے کے بجائے مجھے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل میں ڈال دیا۔جماعت اسلامی کی سابق سینیٹر ڈاکٹر کوثر فردوس نے بھی جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا ہے کہ لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا تھا مگر پرویزمشرف کی حکومت نے معاہدے کو مسترد کرکے بلاجوازآپریشن کیا۔

متعلقہ عنوان :