شہبازشریف کی جتوئی آمد، طالبہ آمنہ کے گھر گئے، سوگوار خاندان سے اظہار افسوس، آر پی او ڈی جی خان او ایس ڈی، ڈی پی او مظفرگڑھ معطل، ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور تفتیشی افسرکی گرفتاری کا حکم،یہ افسوسناک واقعہ انصاف کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے، انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں، تفتیش میں مجرمانہ کوتاہی برتی گئی، اہلکار سزا سے نہیں بچ پائیں گے،وزیراعلیٰ ،پولیس نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ماموں بنادیا،پولیس اہلکاروں کیخلاف ایس ایچ او کی مدعیت میں صرف ناقص تفتیش کا مقدمہ درج

اتوار 16 مارچ 2014 07:24

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مارچ۔2014ء)وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کی بستی لنڈی پتافی میں زیادتی کے بعد انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کرکے زندگی کا خاتمہ کرنے والی طالبہ آمنہ بی بی کے گھرگئے اور سوگوار خاندان سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے متوفیہ آمنہ بی بی کی روح کے ایصال ثواب کے لئے دعائے مغفرت کی اور اس موقع پر آمنہ بی بی کی والدہ سے واقعہ کی تفصیلات معلوم کیں ۔

وزیراعلیٰ نے طالبہ کو انصاف فراہم نہ کرنے پر پولیس کی غفلت اور نااہلی پر آئی جی پنجاب اورایڈیشنل آئی جی انوسٹی گیشن خالق داد لک سے باز پرس کی ۔ وزیراعلیٰ نے تمام حقائق معلوم کرنے کے بعد ڈی ایس پی مظفر گڑھ چوہدری اصغر، ایس ایچ او تھانہ بیٹ میر ہزار ادریس اور تفتیشی افسر رانا ذوالفقار کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے ڈی پی او مظفر گڑھ عثمان اکرم گوندل کو معطل اورآر پی او ڈیرہ غازی خان عبدالقادر قیوم کو فوری او ایس ڈی بنانے کا حکم جاری کیا۔

وزیراعلیٰ نے آر پی او ڈیرہ غازی خان اور ڈی پی او مظفرگڑھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے بعد بروقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور فرانزک سائنس لیبارٹری سے ضروری ٹیسٹ کیوں نہیں کرائے گئے؟تفتیشی افسر کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی؟ یہ افسوسناک واقعہ انصاف کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔ پولیس نے انصاف کی دھجیاں اڑائی ہیں۔

ابھی تک تفتیشی افسر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟وزیراعلیٰ نے کہا کہ علاقے میں اتنے بڑے ظلم اور ناانصافی پر پولیس اور قانون بے بس پایا گیا جو کہ افسوس ناک بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈی پی او کو فوری طور پر میڈیکل اور فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ حاصل کرکے قانونی کارروائی کرنی چاہیے تھی ۔پولیس تفتیش میں کوتاہی کے باعث یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے۔

وزیراعلیٰ نے فاتحہ خوانی کے بعد متوفیہ کے رشتے داروں سے بھی ملاقات کی اور انہیں دلاسہ دیا کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور غفلت کے مرتکب اہلکار سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے اور آمنہ بی بی کے خاندان کو ہر قیمت پر انصاف دلاؤں گا۔ اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔ آمنہ بی بی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ہر صورت ازالہ کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بدترین ناانصافی اور افسوس ناک واقعہ پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔آمنہ بی بی کو بروقت انصاف ملتا تو یہ افسوسناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ پولیس نے اپنے فرائض منصبی ذمہ داری سے ادا نہیں کئے اور مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس افسران کو ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ فرض شناسی کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیئے ۔

وزیراعلیٰ نے ڈی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو یہ ذمہ دار ی دی گئی تھی تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ انصاف کے خلاف وزیراعلیٰ سمیت کسی کی سفارش نہیں ماننی ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نظام کی اصلاح کیلئے انتظامی تبدیلیوں اور اصلاحات کیلئے کام جاری ہے ۔ پولیس کلچر میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے اور عوام انصاف ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ وزیراعلیٰ نے متوفیہ آمنہ بی بی کی والدہ کو پانچ لاکھ روپے کی مالی امداد کا چیک دیا اور بھائی کو ملازمت دینے کا اعلان بھی کیا۔

صوبائی وزراء عبدالوحید ارائیں ، ہارون سلطان بخاری ، اراکین اسمبلی، آ ئی جی پنجاب ، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ، ایڈیشنل آئی جی انوسٹی گیشن ، کمشنر ڈیرہ غازیخان ، ڈی سی او مظفرگڑھ اور متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ادھرمظفرگڑھ خودسوزی کیس میں پولیس نے وزیراعلیٰ کو ماموں بنادیا،پولیس اہلکاروں کیخلاف ایس ایچ او کی مدعیت میں صرف ناقص تفتیش کا مقدمہ درج کیا گیا،قتل ،رشوت ستانی کی دفعات ہی شامل نہیں اور نہ ہی متاثرہ خاندان کو مدعی بنایا گیا ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق مظفرگڑھ میں طالبہ کی خودسوزی کے کیس میں پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے سرگرم ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی پولیس ہاتھ دکھا گئی ہے،وزیراعلیٰ کی ہدایت پر پولیس نے مقدمہ تو درج کرلیا لیکن مقدمہ ایک ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ معطل ہونے والے ایس ایچ او نے ناقص تفتیش کی جس کی وجہ سے طالبہ نے خودسوزی کرلی،پولیس نے مقدمہ میں طالبہ کے خاندان کو مدعی نہیں بنایا اور از خود ہی مدعی بن گئی،مقدمہ میں قتل اور رشوت ستانی کی دفعات بھی شامل نہیں کی گئیں اور صرف ناقص تفتیش کا ذکر کیا گیا ہے۔

متعلقہ عنوان :