آئندہ دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان، 10 فیصد شرح سود برقرار، معیشت کے تقریباً تمام عشارئیے مطلوبہ سمت میں جا رہے ہیں،مرکزی بنک،مہنگائی ،حکومت ونجی شعبے کے قرضوں اور پہلی ششماہی کے بجٹ خسار ے میں کمی، بڑی صنعتوں کی شرح ترقی میں ا ضافہ ہوا ، بیرونی ادائیگیوں میں توازن سمیت معیشت کے استحکام کیلئے اصلاحات اور سرمایہ کاری میں اضافے کی ضرورت ہے،زری پالیسی میں حکومت پر زور

اتوار 16 مارچ 2014 07:22

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مارچ۔2014ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ پچھلے چند ماہ میں تمام معاشی اظہاریوں میں بہتری آئی ہے مہنگائی کم ہوئی ،شرح نمو مضبوط ہوئی جبکہ پہلی ششماہی میں مالیاتی خسارہ قابو میں رہا جبکہ نجی شعبے کے قرضے میں اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود معیشت کو ابھی تک بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ،معاشی شرح نمو کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے پالیسی کے حوالے سے فعال کوششوں کی ضرورت اب بھی ہے تاہم فی الوقت معاشی اشارےئے مثبت ہونے پر اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے10 فیصدپر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مرکزی بینک آف پاکستان نے ہفتہ کو زری پالیسی سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران تقریباً تمام معاشی اظہاریوں میں مطلوبہ سمت میں تبدیلیاں ہوئی ہیں،حکام طویل مدت کے لیے قرض لینے میں کامیاب رہے جس سے منڈی میں مثبت احساسات کا پتہ چلتا ہے۔

(جاری ہے)

نیز امریکی ڈالر کی نسبت روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر، جو کچھ عرصے سے باعث ِتشویش تھے، قدرے بڑھ گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بحیثیت ِمجموعی معیشت کے بحال ہونے پر اعتماد بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کیفیت آئی بی اے اور اسٹیٹ بینک کے سروے پر مبنی مختلف اظہاریوں میں نمایاں تبدیلی سے عیاں ہے جن میں صارفین کا اعتماد اور موجودہ و متوقع معاشی حالات کے بارے میں تصورات ظاہر ہوتے ہیں۔ تاہم عمومی متغیرات میں اِن مثبت تبدیلیوں کے باوجود معیشت کو ابھی تک بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اور اس تیزی کو برقرار رکھنے کے لیے پالیسی کے حوالے سے فعال کاوِش درکار ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا آخر جنوری 2014ء میں 3.2 ارب ڈالر سے 7 مارچ 2014ء کو 4.6 ارب ڈالر تک پہنچ جانا صرف آغاز ہے۔ بہ کفایت سطح پر پہنچنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ذخائر کا زیادہ مقدار میں اور مسلسل جمع ہوتے رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح جولائی تا جنوری م س 14ء کے دوران آنے والی خالص سرمایہ جاتی اور مالی رقوم جو 428 ملین ڈالر تھیں انہیں ابھی تک اِسی مدت میں ہونے والے بیرونی جاری کھاتے کے خسارے 2055 ملین ڈالر سے کم سمجھا جارہا ہے۔

مالی سال 14ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران متوقع بیرونی رقوم کی بروقت آمد سے آئندہ مہینوں کے دوران مجموعی بیرونی پوزیشن میں بہتری کا امکان ہے۔ تاہم متوقع نتیجہ متعدد پالیسی اقدامات پر منحصر ہے جن میں مناسب زری پالیسی موقف شامل ہے۔رپورٹ میں مرکزی بینک نے کہا ہے کہ توازن ادائیگی کی صورت ِحال میں شدید کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے مربوط ساختی اصلاحات درکار ہیں۔

یکبارگی آمد ِرقوم اور بیرونی قرضوں پر انحصار کچھ عرصے تک استحکام فراہم کرسکتا ہے لیکن طویل مدتی استحکام کے لیے آنے والی نجی رقوم کے حصے میں مسلسل اضافے کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح برآمدات کی کارکردگی اور مسابقت بڑھا کر اور توانائی کی ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے درآمد شدہ تیل کا حصہ کم کرکے تجارتی خسارہ گھٹانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر نے منڈی کے احساسات کو بہتر بنایا ہے، سٹے بازوں کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اس کے نتیجے میں 17 جنوری 2014ء کو پچھلے زری پالیسی فیصلے سے اب تک ڈالر کی نسبت روپے کی قیمت میں 6.0 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق منڈی کے احساسات پر مثبت اثر مرتب کرنے میں گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) میں توقع سے زیادہ کمی کا کردار بھی ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں سے دو کے دوران گرانی میں ماہ بہ ماہ کمی کی بنا پر فروری 2014ء میں سال بسال گرانی گھٹ کر 7.9 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ صورت ِحال مجموعی طور پر اسٹیٹ بینک کے پچھلے جائزے سے ہم آہنگ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی منجمد پیداواری استعداد کے استعمال میں اضافے کی عکاس ہوگی نہ کہ مجموعی طلب میں معمولی اضافے کی۔

بالفاظ دیگر بڑے پیمانے پر اشیا سازی کے شعبے میں 6.8 فیصد کی نمو بہتر مجموعی رسد کی علامت ہے جو گرانی کو محدود کرنے کے لیے اچھا شگون ہے۔ شرح مبادلہ میں بہتری سمیت ان رجحانات نے گرانی کی آئندہ ممکنہ صورت ِحال کو بہتر بنایا ہے اور م س 14ء کے لیے اوسط مہنگائی کے یک ہندسی (single-digit) رہنے کا زیادہ امکان ہے۔اسٹیٹ بینک کی زرمی پالیسی رپورٹ کے مطابق گرانی میں کمی کے ساتھ ساتھ بازار کے بڑھتے ہوئے اعتماد نے مالیاتی حکام کو قلیل مدتی ٹریژری بلز (ٹی بلز) کے بجائے طویل مدتی پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) کے ذریعے اپنی قرض گیری کی اضافی ضروریات پوری کرنے میں مدد دی۔

تاہم اسٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری کا اسٹاک (نقد بنیاد پر) جو 7 مارچ 2014ء کو 2669 ارب روپے تھا ابھی تک بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے خالص ملکی اثاثوں میں نمو کو طے شدہ اہداف میں رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری میں کمی بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہوگی۔ متوقع بیرونی رقوم کا بروقت موصول ہونا ایک اہم عامل ہے۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے بلکہ زری مجموعوں کو مطلوبہ سمت پر رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ اسٹیٹ بینک نے رپورٹ میں کہا کہ ان پہلوؤں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 10.0 فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :