صوبا ئی حکو متیں بتا ئیں انکی مرضی کے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا جائے تو وہ کتنے عرصے میں بلدیاتی انتخابات کرادیں گے،سپریم کورٹ ، عدا لت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں مناسب ترمیم کے معا ملے پر حکومت پنجاب کو ٹائم فریم دینے کیلئے 19 مارچ تک کی مہلت دے دی،لیکشن کمیشن اگر قومی اسمبلی کیلئے حد بندیاں کرسکتا ہے تو بلدیاتی انتخابات کیلئے کیوں نہیں کر سکتا، جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ریمارکس

جمعہ 14 مارچ 2014 07:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد‘ حد بندیوں کے حوالے سے موجودہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ پنجاب میں مناسب ترمیم کرنے کے معاملے پر حکومت پنجاب کو ٹائم فریم دینے کیلئے 19 مارچ تک مہلت دے دی ہے‘ عدالت نے سندھ اور پنجاب سے جواب طلب کیا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ اگر ان کی مرضی کے قانون کے مطابق فیصلے کردیا جائے تو وہ کتنے عرصے میں بلدیاتی انتخابات کرادیں گے جبکہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم عام لوگوں تک ان کے حقوق پہنچانے کیلئے قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں‘ حکومت پنجاب اور سندھ بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتے اسلئے زیادہ سے زیادہ وقت مانگنے میں لگے ہوئے ہیں‘ حکومت پنجاب اگر رضامند ہے تو پھر حد بندیاں الیکشن کمیشن کو کرنے دے اور بلدیاتی انتخابات کرانے کا ٹائم فریم دے دے‘ اگر الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کیلئے حد بندیاں کرسکتا ہے تو بلدیاتی انتخابات کیلئے کیوں نہیں کراسکتا جبکہ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے زیادہ مشکل نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی ہے جو موجودہ حکومتوں کیلئے کرنا بہت حد تک قابل قبول نہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل کا دعویٰ کرنے والے سردار لطیف کھوسہ گذشتہ روز کی سماعت کے دوران خود پیش ہوئے اور نہ ہی پارٹی کی جانب سے کوئی جواب عدالت میں پیش کیا ۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 222 کے تحت حد بندیاں الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

اٹھارہویں ترمیم اس حوالے سے خاموش ہے۔ مقامی حکومت بھی اسی زمرے میں لائی جاسکتی ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون بنانا مجلس شوریٰ کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پنجاب میں اب ویکیوم آگیا ہے۔ کوئی حد بند کی شق نہیں۔ کیا الیکشن کمیشن خود اس خلاء کو پر کرسکتا ہے۔ اکرمشیخ نے کہا کہ یہ فارمولا موجود ہے‘ سوال یہ ہے کہ لاگو کون کرے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم نے فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ دوسری جماعتوں نے کیا ہے۔ ہم لارجر بنچ کے فیصلوں کے مطابق حد بندیاں کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی دو فیصلے ہیں ان کو چیلنج نہیں کیا۔ حکومت اپنے فرائض سے لاعلم نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ فرض کریں کہ ہم فیصلے کو اپ ہولڈ کردیتے ہیں تو آپ کتنا عرصہ بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے لیں گے اور قانون سازی کریں گے۔

اے جی پنجاب نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے اس کا تو جواب نہیں دے سکتے‘ مناسب وقت ضرور لگے گا۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ دو سال کا وقت بھی آپ کیلئے مناسب ہی رہا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ سات سال کی بات کریں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ معلوم کرلیں کتنا وقت لیں گے۔ دو سال کی اجازت نہیں دیں گے۔ اے جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے دو سال نہیں لگانے اور نہ ہی یہ خواہش ہے۔

جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ کی خواہش تو ضرور ہے مگر آپ کرتے ہی نہیں یہ اور بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس دیکھ لیں الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کیلئے حد بندیاں کرتا ہے۔ حکومت پنجاب اور سندھ کے اپنے اپنے ایکٹ ہیں اور وہ صوبائی حکومتوں کو اس کا اختیار دیتے ہیں۔ اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اپیلٹ اتھارٹی ہو۔ سیکشن 7‘ سیکشن 19 سے متصادم ہو تو پھر کیا کریں گے۔

سندھ ایکٹ میں روپا کو ایکٹ بنادیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 1974ء ایکٹ میں ترمیم کئے بغیر کچھ ممکن نہیں اور قانون سازی اور ترمیم کا اختیار مجلس شوریٰ کے پاس ہے۔ حکومت محسوس کرتی ہے اور بیان بھی چیف سیکرٹری کے ذریعے دیا ہے۔ اگر آرٹیکل 222 کو تبدیل نہیں کیا جاتا تو صوبائی حکومتیں قانون سازی کیلئے کہہ سکتی ہیں۔ آپ فیصلہ دیں جو چاروں صوبائی حکومتوں کی راہنمائی کریں۔

سب کا طریقہ کار ایک ہی ہونا چاہئے۔ صوبائی حکومت کو عدالتی راہنمائی میں نئی قانون سازی کیلئے کہا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا اس حوالے سے کام کیوں نہیں کیا گیا۔ کتنا وقت باقی رہ گیا ہے جو ضرورت ہوگا۔ اے جی پنجاب نے کہا کہ اگر میں حکومت سے بات کئے بغیر بات کروں تو مناسب نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں آپ ہمیں الیکشن کے حوالے سے ٹائم فریم دے دیں اس کے مطابق فیصلہ کرلیں گے۔ الیکشن کمیشن نے سیکشن 7‘ 8‘ 9 کا سیکشن 19 سے مقابلہ ہونے بارے تحریری جواب داخل کیا ہے۔ حکومت پنجاب نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ مصطفی رمدے نے بتایا کہ حکومت پنجاب کی بلدیاتی انتخابات کی سکیم کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے۔

فیصلے میں دی گئی ہدایات پر عملدرآمد کیلئے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں ترمیم کی ضرورت ہوگی اس حوالے سے انہوں نے عدالت سے وقت مانگا ہے تاکہ وہ عدالت کو بتاسکیں کہ کتنے عرصے میں اس حوالے سے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے سماعت بدھ تک کیلئے ملتوی کردی۔ کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کے حوالے سے بھی کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے۔