سپریم کورٹ، چیف الیکشن کمشنر سمیت اہم سرکاری عہدوں پر مستقل افسران کی عدم تقرری پر وفا ق سے 24 گھنٹوں میں جواب طلب،کاری عہدوں پر مستقل افسران کی تقرری بغیر جمہوری حکومت کام نہیں کر سکتی ،عدالتی ابزرویشن، اہم عہدوں پر تقرریاں کیوں نہیں کی جارہی ہیں؟ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے ملک کسی کا کوئی پرواہ ہی نہیں، عوام کا پیسہ کسی کو ہڑپ نہیں کرنے دیں گے،جسٹس جوا دایس خواجہ کے ریمارکس

بدھ 12 مارچ 2014 08:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر سمیت اہم سرکاری عہدوں پر مستقل افسران کی عدم تقرری پر وفاقی حکومت سے 24 گھنٹوں میں جواب طلب کرتے ہوئے ابزرویشن دی ہے کہ سرکاری عہدوں پر مستقل افسران کی تقرری بغیر جمہوری حکومت کام نہیں کر سکتی جبکہ جسٹس جوا دایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کرنا ہمارا کام نہیں اگر جمہوریت حکومت کام نہیں کر سکتی تو وہ ہمیں آئینی و قانونی طورپر جواز دے دے تو ان کے کام عدلت کرنے کو تیار ہے‘ سو سے زائد اہم پوسٹوں پر تاحال مستقل افسران کا تقرر نہیں کیا گیا۔

چیئرمین نیب کی تقرری پر بھی قوم کا وقت ضائع کیا جارہا ہے یہ ملک میں ہوکیا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل وفاق سے جواب لے کر ہمیں بتائیں اس طرح سے معاملات کو نہیں چلانے دیں گے۔

(جاری ہے)

اہم عہدوں پر تقرریاں کیوں نہیں کی جارہی ہیں ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے ملک کسی کا کوئی پرواہ ہی نہیں۔ عوام کا پیسہ کسی کو ہڑپ نہیں کرنے دیں گے ہم اگر کسی کا مواخزہ نہیں کر سکتے تو پھر کیا ملک کو تباہ ہوتا دیکھتے رہیں چیئرمین نیب کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہیں ان کے کسی فیصلے کا عدالت جائزہ نہیں لے سکتی ایسا نہیں ہے عدالت کو ہر طرح کے اختیارات حاصل ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے عقیل کریم ڈھیڈی کا نام دھوکے سے انکوائری رپورٹ میں شامل کئے جانے کی درخواست پر اٹارنی جنرل پاکستان‘ پراسیکیوٹر جنرل نیب تحقیقات افسر کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں اور ان سے 26 مارچ تک جواب طلب کیا ہے یہ حکم جسٹس جواد ایس خوجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منگل کے روز جاری کیا ہے۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ جب نیب کی جانب سے معاملہ تفتیش کیلئے بلوایا جاتا ہے یا نہیں یہ پہلا مرحلہ ہے۔ جبکہ عدالتی رویو شروع ہوتا ہے چیئرمین جب کسی درخواست پر ریفرنس فائل کرنے کیلئے اپنا ذہن بناتا ہے اس کے بعد جو وہ فیصلہ کرتا ہے اس پر عدالت کو رویو کا اختیار ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا ہم جو شکایت بھیج رہے ہیں اس کا کیا وہ جواب دینے کے پابند ہیں ہم اختیارات میں توازن‘ تفتیش میں عدلت بارے ہم محتاط ہیں اگر معاملے میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر ہم مداخلت کا اختیار رکھتے ہیں نیب کے لئے 26 ماہ اور سال بھی شاید ان کے لئے جلدی کے معنی میں آتے ہوں مگر ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے۔

چیئرمین نیب نہ ہو تو پھر عدالت کیا کرے گی اس پر اے جی نے جواب میں عدالتی فیصلہ پیس کیا کہ بینک آف پنجاب کیس میں عدالت نے تفتیش اور تحقیقاتی ایجنسی کیلئے اہم مقدمات کے حوالے سے قواعد و ضوابط وضع کردیئے ہیں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات شفاف ہوں گی 10-A کے تحت فیئر ٹرائل کیا جائے گا ۔ فنانشل اور تکنیکی مہارت کے حامل افسران کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے تو ایسے عام افسر کیسے تحقیقات کرے گا اگر تحقیقات مناسب طریقے سے کی گئی ہے تو رپورٹ چیئرمین نیب کے پاس جائے گی جس پر چیئرمین نیب ہی اس کا فیصلہ کرے گا اگر فیصلہ ہوجائے تو پھر عدالت کا اختیار شروع ہوجاتا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کے کے آغا نے کہا تھا کہ عدالت نیب کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی اے جی نے کہا کہ آپ کو جودیشل رویو کا اختیار ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیب نے تو ہماری جانب سے طلب کردہ رپورٹ کے حوالے سے نظر ثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے ۔ اس میں ہم نے نیب کو ہدایت جاری کر رکھی ہے ہم نے کہا تھا کہ نیب نے اوگرا کیس میں جن لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور اس حوالے سے رپورٹ دی جائے۔ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کیلئے ایک ہفتے کا وقت بھی دیا گیا تھا۔

آغا کہتے ہیں کہ چیئرمین نیب نہ ہو تو معاملات رکے رہیں گے اے جی نے الجہاد ٹرسٹ کیس کا بھی حوالہ دیا۔ وزیراعظم سمیت دیگر لوگون کے خلاف کارروائی روز روز نہیں ہوسکتی چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے کہا تھا کہ جلد سے جلد اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرکے مقرر کیا جائے اور اگر وہ مقرر نہیں کرتے تو عدالت توہین عدالت کی کارروائی کرے گی یہ تو فیصلے میں عدالت کو دیا تھا مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر چیئرمین ہی نہیں ہے تو پھر عدالت کس کے خلاف کارروائی کرے گی اے جی نے ایک فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ ڈپٹی چیئرمین کو قائم مقام چیئرمین کا اختیار دیاجائے گا ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ میں نے اخبار میں خبر پڑھی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر کی تحقیقات کا حکم دیا تھا وہ حکمنامہ ہمارے لئے بطور ریفرنس کے استعمال کیا جاسکتا ہے عجیب سی صورتحال ہے سرکار اور قائد حزب اختلاف کام نہیں کرتا تو ہمیں انہیں کام کرنے کیلئے کہیں یہ تو سکول کے بچوں سے ہوم ورک پوچھنے والی بات ہے۔ جمہوری حکومت کو تو کام خود کرنا پڑتا ہے اے جی نے بتایاکہ ایک بار پیش ہوا تھا ایک ماہ کا وقت دیا تھا ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ حکومت کام نہیں کررہی کام نہیں کرے گی تو توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ نان ایشو پر ہم بحث کرنے میں لگے ہوئے ہیں خالی نشست ہے مسئلہ بتہ بڑا ہے پانچ ماہ تک چیئرمین نہیں تھے۔ اگر چیئرمین ہی نہ ہو تو کیا دفتر بند کردیں گے کے کے آغا نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین ایک ماہ تک بطور قائم مقام کام کرتے رہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ریفرنس فائل کرنے کا وقت ختم ہورہا تھا لیمیٹیشن کا بھی ایشو تھا تو ایسے میں کیا ہوگا کء ی مسائل سامنے آتے ہیں حکومت کیا کہتی ہے قانون سازی سے اگر یہ مسئلہ ختم ہوسکتا ہے تو بتایا جائے چیئرمین کیلئے نام دیئے جاتے پھر ان پر مشاورت ہوتی وہ نام واپس کریدئے جاتے۔ ہم حکومت نہیں چلاسکتے ہمارا یہ کردار ہی نہیں یا ہمیں بتا دیں کہ وہ حکومت نہیں چلا سکتے اور ہم آئینی طور پر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے حکومت چلانا شروع کردیں یہ اچھا جمہوری حکومت چلانا ہوگا۔

یہ مقدمے پر دلائل کومکمل کررہے ہیں جواب الجواب ہمیں اگر آج ہی مل جائیں تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ حامد خان نے بھی دلائل دیئے ایک ملزم کے خلاف ریفرنس دائر ہوچکا ہے عدالت کی ڈائریکشن کے بعد کیس انکواری متاثر ہورہی ہے پہلی انکوائری مختلف تھی دوسری انکواری کسی اور ہی راستے پر چلی گئی ہے نیب کی کوئی مانیٹرنگ تک نہیں ہے وقاص احمد خان نے انکواری کی تھی اور دو الگ الگ نتائج دی ئے تھے عدالت نے کہا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں آپ نیب عدالت سے رجوع کریں اپ کی استدعا کیا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ نیب کو ہدایت کی جائے کہ معاملات شفاف طریقے سے چلائے جائیں عبوری ریلیف بھی مانگا گیا ہے عقیل کریم ڈھیڈی کے وکیل کے طور پر ریلیف مانگا گیا ہے 13 ملزمان کا نام رپورٹ میں آیا تھا پہلے رپورٹ میں عقیل کریم ڈھیڈی کا نام نہیں تھا جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اس کیس میں بہت کچھ ہوا ہے ریفرنس کورٹ میں چلا گیا ہے پہلے عبوری ریفرنس پیش کیا گیا پھر حتمی ریفرنس پیش کیا گیا۔

یہ معاملہ احتساب عدالت دیکھے گی آپ کی درخواست پر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر کہیں مداخلت کی ضرورت ہے تو ضرور دیکھیں گے حامد خان نے کہا کہ پہلی رپورٹ میں دو اور لوگوں کے نام تھے جن کو دوسری رپورٹ میں نکال کر ہمارے موکل کا نام ڈال دیا گیا جسٹس جواد نے کہا کہ ہم مواخذہ نہیں کر سکتے۔ کے کے آغا سے پوچھا کہ کیا ایسا ہوا ہے یا نہیں۔ کے کے آغا نے بتای اکہ پہلی رپورٹ میں کوئی نام غلطی سے ڈال دیا گای تھا جس کو نکال دیا گیا جسٹس جواد نے کہا کہ کیا عدالت ملزمان کے حوالے سے پوچھ سکتی ہے کیا احتساب عدالت بے بس ہے جو چالان نہیں ہوا اس کو بھی چالان کرنے کا نیب عدالت کو اختیار حاصل ہے اس کا جائزہ بدھ کو لین گے اور فیصلہ کریآں گے 189 آرٹیکل کے حوالے سے ہمیں معاونت کی ضرورت پڑے گی اس کو ایک ہفتے کے بعد ہی اس کی اگر سماعت کرلی جائے اور اٹارنی جنرل کو نوٹس دے کر ان کا موقف سن لیں تو بہتر ہوگا آحامد خان نے کہا کہ تحقیقاتی افسر کو بھی طلب کیا جائے کہ دو مختلف رپورٹس اصل رپورٹ کون سی ہے؟ حامد خان نے کہا کہ یہ معاملہ مانیٹرنگ کا ہے اس لئے عدالت کے نوٹس میں لائے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عوام الناس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

توقیر صادق کو واپس لانے کیلئے 38 لاکھ روپے لگے ہیں کوئی ڈھاکہ جارہا ہے تو کہیں بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا ہے ملزم کوئی بھی ہے اس کے بنیادی حقوق تو محفوظ ہوں گے۔ عدالت نے عقیل کریم ڈھیدی کا نام انکوائری رپورٹ میں شامل کرنے پر اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اور کیس کی سماعت دو ہفتوں بعد کی جاےء گی عدالت نے تحقیقاتی افسر نیب کو بھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہوں حامد خان کیلئے احتساب عدالت ہی مناسب فورم ہے مگر پرنسپل آف لاء کا فیصلہ ہمیں کرنا ہوگا۔

اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ضابطہ فوجداری اور نیب قواعد کے مطابق تحقیقاتی افسر کس کا نامرپورٹ میں ڈال سکتا ہے اور کس کا نام نکال سکتا ہے اس معاملے میں پراسیکیوٹر جنرل نیب بھی ہماری معاونت کریں عدلات اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہوگی کیس کی سماعت 26 مارچ کو کی جائے گی تحقیقاتی افسر بھی اپنی حاضری کو یقینی بنائیں۔

باقی اوگرا عمل درآمد کیس کی سماعت آج بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کی جاتی ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سرکار افسران کے بغیر کیسے چل سکتی ہے چیف الیکشن کمشنر کا معاملہ بیس مارچ کو ہورہاہے آپ اس کو بھی دیکھ لیں سو ٹاپ پوزیشن خالی ہیں بغیر ان تقرریوں کے حکومت کیسے چل سکتی ہے پانچ مہینے تک نیب کا چیئرمین بھی نہیں تھا یہ ملک میں کیا جورہا ہے ہمیں حکومت سے پتہ کرکے بتائیں کہ یہ تقرریاں کب تک ہوں گی۔