سپریم کورٹ نے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں اٹارنی جنرل اور خیبر پختونخواہ حکومت سے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کر لی ،عدالت سے مذاق بند کیا جائے، یاسین شاہ سمیت لاپتہ افراد کو بازیاب کرواکر آ ج پیش کیا جائے ، سپریم کورٹ،ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے تو بہتر ہے‘ تو چل میں چل سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہورہا۔سات ماہ گزرگئے صوبائی حکومت نے ایف آئی آر درج کی ہے اور نہ ہی کوئی تفتیشی افسر مقرر کیا ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

منگل 11 مارچ 2014 08:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ نے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان اور خیبر پختونخواہ حکومت سے 24 گھنٹے میں پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفتیش کا کام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ ملزموں کیخلاف کارروائی وفاقی حکومت کا کام ہے‘ عدالت سے مذاق بند کیا جائے اور یاسین شاہ سمیت لاپتہ افراد کو بازیاب کرواکر عدالت میں (آج) منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک پیش کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالت قانون کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق سنجیدہ حکم نامہ جاری کرے گی‘ بادی النظر میں چیف ایگزیکٹو وفاقی حکومت‘ گورنر اور چیف ایگزیکٹو کے پی کے نے عدالتی احکامات پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ مقدمہ ہے جس میں کسی کو بھی عدالتی احکامات کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے‘ سات ماہ گزرگئے صوبائی حکومت نے ایف آئی آر درج کی ہے اور نہ ہی کوئی تفتیشی افسر مقرر کیا ہے‘ حد یہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے مقدمے کے ابتدائی نکات لے کر آگئے ہیں اور کوئی پیشرفت رپورٹ نہیں دی‘ جو افراد بازیاب ہوچکے ہیں ان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات کرائی جائے‘ ہمیں اس سطح تک نہ لے جائیں کہ جس تک ہم نہیں جانا چاہتے‘ ہمارے صبر کا امتحان اب نہ لیا جائے تو بہتر ہے‘ تو چل میں چل سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہورہا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دئیے۔ 35 لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پیر کے روز شروع کی تو اس دوران اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ‘ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے‘ محبت شاہ اور دیگر پولیس حکام پیش ہوئے۔ اس دوران وزارت دفاع کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی۔ عدالت نے لطیف یوسفزئی سے تفصیلات پوچھیں۔

اے جی کے پی کے نے بتایا کہ ایک شخص نے 35 افراد کو اپنے قبضے میں لے لیا اور فوج کے حوالے کیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کا تجربہ ہم سے زیادہ ہے۔ ایف آئی آر ہے نہیں تو پھر کس طرح تفتیش ہورہی ہے۔ آپ کی رپورٹ پڑھ لی ہے۔ تفتیش کا ایک خاص مطلب ہے‘ فوجداری نوعیت کا معاملہ لگتا ہے۔ نیب کیس میں بھی تفیش کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ اے جی کے پی کے نے بتایا کہ تفتیش ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ہوگی۔

یہ لاپتہ افراد ایک مخصوص شخص کے حوالے کئے گئے ہیں اس شخص سے پوچھا جائے کہ یہ بندے کہاں گئے ہیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی پراگرس نہیں ہے یہ تو مذاق ہے۔ اٹارنی جنرل بتائیں کہ یہ تفتیش کا لیول ہے تو پھر کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح سے تفتیش ہوگی تو محبت شاہ اسے مسترد کردے گا۔ 5 اگست کو پہلا حکم جاری کیا۔ 10 مارچ کو 7 ماہ گزرگئے میرے پاس تفتیشی بھجوادیتے تو میں سمجھادیتا مجھے کہنے دیں بتادیں کیا ہم محبت شاہ کو برطانیہ یا افغانستان بھجوادیں اور کہہ دیں کہ وہ اس ملک کا شہری نہیں ہے۔

یہ اطمینا بخش رپورٹ نہیں ہے۔ سات پہلے آگئے‘ ایک مرگیا‘ پانچ بعد میں آگئے۔ صوبہ آپ سے ڈرتا ہے جو رپورٹ دینے کو تیار نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے کچھ وقت دے دیں پتہ کرکے بتادوں گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تو چل میں چل کا معاملہ چل رہا ہے چٹھیاں لکھی جارہی ہیں لیکن ہو کچھ نہیں رہا۔ چالیس سال مجھے ہوگئے ہیں مجھے تو اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔

یہ معاملہ آپ کے ذمے لگا کر صوبہ جان بچا رہا ہے۔ آپ بطور ملزم ممکن ہے ذمہ دار ہوں تفتیشی ہونے کے حوالے سے صوبہ ذمہ دار ہے۔ 154 پر عمل نہیں‘ 164 کیسے شروع ہوگا۔ اس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ سوچتے رہے اور پھر حکم نامہ تحریر کرایا جس میں کہا گیا کہ یہ مقدمہ 5 اگست 2013ء سے زیر سماعت ہے۔ مختلف تاریخوں پر اس کی سماعت ہوتی رہی اور آخرکار دو مواقع پر کچھ لوگوں کو پیش کیا گیا۔

یاسین شاہ اور 34 افراد مالاکنڈ کے حراستی مرکز میں تھے کہ انہیں فوج کی تحویل میں دے دیا گیا۔ 25 نومبر 2013ء کو سپرنٹنڈنٹ حراستی مرکز عطاء اللہ کو طلب کیا گیا۔ وہ عدالت میں پیش ہوئے اور تمامتر ریکارڈ عدالت میں پیش کیا تھا جس میں 35 لاپتہ افراد کے حوالے سے تفصیلات دی گئی تھیں اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو ہدایت کی گئی کہ ان لاپتہ افراد کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں اور رپورٹ دی جائے۔

لطیف یوسفزئی نے عدالت کو بتایا کہ قانونی طور پر معاملات شروع ہیں مگر پیشرفت نہ ہونا حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا گیا جو پولیس تحقیقات میں اٹھاتی ہے بادی النظر میں یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے جو 10 دسمبر 2013ء کو جاری کیا گیا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرواکر عدالت میں پیش کیا جائے۔

اس حوالے سے چیف ایگزیکٹو وفاقی حکومت‘ گورنر کے پی کے اور چیف ایگزیکٹو کے پی کے کو ہدایات جاری کی گئی تھیں اس کے علاوہ ذمہ دار افراد کو بھی ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ یہ ایک آئینی معاملہ ہے جس پر عمل کرنا وفاق اور صوبے دونوں کی ذمہ داری ہے۔ آرڈر شیٹ میں بار بار یہ بات کی گئی ہے مگر تحقیقات میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔

جو حالات بتلائے جارہے ہیں اس کے مطابق 35 میں سے 14 افراد پیش کئے گئے ہیں۔ دو افراد میں سے ایک سے اس کے اہل خانہ نے ملاقات بھی کرلی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے اس حوالے سے ملاقات کرواکر رپورٹ دیں۔ نام اور دیگر تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے کچھ وقت دئیے جانے کی استدعاء کی کہ وہ متعلقہ حکام سے بات کرکے جواب دیں گے۔ جسٹس جواد نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم پہلے بھی آپ کو وقت دے چکے ہیں آپ کے کہنے پر ہی وقت دیا تھا۔ عدالتوں کا مذاق نہ اڑائیں اور یاسین شاہ کو عدالت میں پیش کریں۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر ہمارے حکم پر عمل نہ ہوا تو منگل کو ساڑھے گیارہ بجے ایک سنجیدہ حکم جاری کریں گے۔

متعلقہ عنوان :