تھرپار کے باسیوں کیلئے ہر گزرتا لمحہ ایک نیا امتحان، امدادی کام جاری، غذائی قلت اور بیماریوں کے مارے ان لوگوں پر ناامیدی کے سائے اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ دودھ کے چند قطروں کو ترستے بچوں کو دیکھ کر والدین حسرت اور بے بسی کا مجسمہ بن کر رہ گئے،تھر میں صورت حال کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے،تصدق جیلانی،سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جانے چاہئیں‘ بتایا جائے تھر میں غذائی قلت اور علاج نہ ہونے کے باعث کل کتنی اموات ہوئیں ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان

منگل 11 مارچ 2014 08:29

مٹھی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11مارچ۔2014ء)تھرپار کے باسیوں کے لئے ہر گزرتا لمحہ ایک نیا امتحان لے کر آ ر ہا ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار کے مٹھی پہنچنے کی اطلاع نے ان کی امید بندھائی، لیکن کھانے پینے کی اشیاء ملنے کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق غذائی قلت اور بیماریوں کے مارے ان لوگوں پر ناامیدی کے سائے اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

دودھ کے چند قطروں کو ترستے بچوں کو دیکھ کر والدین حسرت اور بے بسی کا مجسمہ بن کر رہ گئے۔ ہزاروں افراد بے یارومددگار امداد کی راہ تکتے تکتے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف بچے اور بڑے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور خالی بوتلیں ان کی پیاس اور حسرتیں بڑھا رہی ہیں اور دوسری طرف شاہی سواری کے استقبال کے لئے صاف شفاف پانی سے راستے کی دھول بٹھائی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

اسپتالوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مریض بچوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ ادھر چھاچھرو میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد نو ہو گئی ہے۔ انتظار کی طویل گھڑیاں ختم نہ ہونے پر خوراک اور پانی کی تلاش میں تھر کے باسیوں نے اپنے گھر بار چھوڑ دیئے۔ ابھی تک دور دراز بیشمار ایسے دیہات ہیں جن کے حالات کا بھی کسی کو علم نہیں۔ادھر سپریم کورٹ نے تھر میں پیدا ہونے والی صورت حال کاذمہ دار حکومت سندھ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میڈیا نہ بتاتا تو معاملہ دبا دیا جاتا، بتایا جائے تھر میں غذائی قلت اور علاج نہ ہونے کے باعث کل کتنی اموات ہوئیں ہیں، ۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے تھر میں بچوں کو اموات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جانے چاہییں، تھر میں صورت حال کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ تھر میں صورتحال اتنی خراب نہیں جتنا میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اس بار بارش نہیں ہوئی اور بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی، تھر کے لوگ اپنے بچوں کا مناسب خیال بھی نہیں رکھتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میڈیا نہ بتاتا تو یہ معاملہ دب جاتا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی بات پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ تھر کے لوگ ہی اپنے بچوں کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے چیف سیکریٹری سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ یہ خشک سالی پہلی دفعہ نہیں ہوئی، کیا آپ کو پتا ہے کہ اب تک تھر میں کتنے بچے مرے ہیں؟، خوراک کاذخیرہ آپ کے پاس ہے اور بچے بھوک سے بلک بلک کر مررہے ہیں، یہ ہی بتادیں کہ کتنے بچے مرنے پر صاحب اقتدار حرکت میں آتے ہیں۔

جس پر چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کہ وہ کل ہی پہنچے ہیں اور ان کے پاس جنوری اور فروری میں ہونے والی اموات کا ریکارڈ ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ اصولی طور پر ساری صورت حال کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے اور اسے اس کا پچھتاوا بھی ہے، خوراک اور دوائیں متاثرہ علاقوں میں پہنچائی جا رہی ہیں اس کے علاوہ پیر کو مٹھی میں صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی ہوگا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔