وزیر داخلہ طالبان کو تحفظ فراہم کررہے ہیں‘ خورشید شاہ،بتایا جائے کہ اگر طالبان محب وطن ہیں تو غدار کون ہے؟ قائد حزب اختلاف کا قومی اسمبلی میں بیان مذاکرات پر اعتراض نہیں لیکن فوج کو مت شامل کیا جائے‘ مسلم لیگ (ن) تاریخ بھول چکی‘ 90ء کی دہائی والی سیاست پر اتر آئی ہے‘ چوہدری نثار کے خطاب پر ردعمل

ہفتہ 8 مارچ 2014 02:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مارچ۔2014ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ اپنی تقریر سے طالبان کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ اگر طالبان محب وطن ہیں تو بتایا جائے کہ پھر غدار کون ہے؟‘ مذاکرات کی مخالفت نہیں کی لیکن افواج پاکستان کو مذاکرات میں مت شامل کیا جائے‘ جمہوری حکومت جمہوری انداز اپنائے‘ لگتا ہے مسلم لیگ (ن) تاریخ بھول چکی ہے اور دوبارہ 90ء کی دہائی کی سیاست کرنا چاہتی ہے‘ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ جج کو اپنے ہی گارڈ کی پستول سے گولی لگی ہے تو بتایا جائے کہ ایک پستول سے تین گولیاں اکٹھی کیسے چل گئیں‘ سانحہ اسلام آباد میں 95 فیصد لوگوں کو گولیاں لگی ہیں‘ کبھی لال مسجد آپریشن کے حق میں ریلی نہیں نکالی‘ الزام عائد نہ کیا جائے‘ جمہوریت پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘ فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سن رہے ہیں جبکہ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کررہے ہیں اور فوج کو کردار دیا ہے‘ غلط مطلب نہ لیا جائے‘ ماضی میں لال مسجد آپریشن‘ مشرف کیس‘ پی پی نے حق میں ریلیاں نکالیں‘ آج ملک اس وجہ سے مشکلات کا شکار ہے‘ ماضی کی سیاست واپس نہ آئے‘ حکومت یقین دلاتی ہے‘ اپوزیشن کے تحفظات دور اور مذاکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جارہا ہے‘ خواجہ سعد رفیق کا جواب۔

(جاری ہے)

جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر داخلہ کی تقریر کے حوالے سے بات کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ قومی داخلی پالیسی کے حوالے سے قوم کی نظریں پارلیمنٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ وزیر داخلہ کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طالبان کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے دروازے شیشے کے تھے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق95 فیصد لوگوں کو گولیاں لگی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان محب وطن ہیں جنہوں نے ایف سی اہلکاروں کی لاشوں کی بے حرمتی کی اور معصوم لوگوں کو شہید کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد واقعہ میں آٹھ سے دس افراد دہشت گرد تھے جبکہ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ دو دہشت گرد تھے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور ہمیں فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے دئیے جاتے ہیں پھر بھی ہم نے برداشت کیا۔

انہوں نے کہا کہ فوج کو طالبان مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہ کریں کیونکہ کل کو فوج پر مذاکرات کی ناکامی کا الزام لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ فوج وزیراعظم کے ماتحت ہے حکومت کا کہا مانیں گے اور پارلیمنٹ کو چلانے کیلئے ماحول پیدا کریں جبکہ ملک کو تباہ کرنے میں فوجی ڈکٹیٹروں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ جمہوریت دوستی کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) 2002ء کی تاریخ بھول گئی جب وہ 18 ممبران ایوان میں آئے تھے۔

حکمران ذاتی مفاد کی خاطر جمہوریت کا گلا نہ گھونٹیں۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی تجربہ کار اپوزیشن جماعت ہے اور قائد حزب اختلاف ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فوج کو کردار دیا جارہا ہے اس کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے ماحول سازگار بنایا جائے۔ ماضی میں پیپلزپارٹی نے لال مسجد کے حق میں ریلیاں نکالی تھیں اور مشرف نے لال مسجد آپریشن کیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی سیاست واپس نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہاکہ لال مسجد آپریشن کیخلاف مسلم لیگ (ن) تھی اور اس کی بھرپور مخالفت کی گئی تھی جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے کبھی لال مسجد کے حوالے سے کوئی ریلی نہیں نکالی جس پر خواجہ سعد رفیق نے جواب دیا کہ اس وقت (ن) لیگ آپریشن کی مخالفت کررہی تھی اور پیپلزپارٹی اس آپریشن کی حمایت کررہی تھی۔