خضدار اجتماعی قبریں ازخود نوٹس کیس سما عت ، ڈپٹی کمشنر خضدار اور میڈیا کی اجتماعی قبروں کے حوالے سے رپورٹ میں تضاد ہے ،سپریم کورٹ، حکومت نے کوئی کام اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھی کرنا ہے یا نہیں ، لو گوں کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ،جسٹس امیر ہانی مسلم کے ریما رکس

ہفتہ 8 مارچ 2014 02:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ نے خضدار میں اجتماعی قبروں کے حوالے سے لئے گئے ازخود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر خضدار اور میڈیا کی اجتماعی قبروں کے حوالے سے رپورٹ میں تضاد ہے ۔ میڈیا پچیس افراد کی لاشیں جبکہ ڈی سی خضدار 13لاشوں کے ملنے کی رپورٹ دے رہے ہیں ۔ عدالتی کمیشن بھی اس حوالے سے کام کررہا ہے جس نے تحقیقات کے لیے دو ماہ کا وقت مانگا ہے سپریم کورٹ کمیشن کی تحقیقات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی اس لئے سماعت ملتوی کی جاتی ہے ۔

یہ حکم جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جمعہ کے روز جاری کیا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حالات یہ ہیں کہ بلوچستان میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تحفظ کررہے ہیں ۔

(جاری ہے)

لاپتہ افراد اور بلوچستان کے حالات میں حکومت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے حکومت پہلے کچھ نہیں کرتی جیسے ہی عدالت حکم دیتی ہے اسے ہوش آجاتا ہے کیا حکومت نے کوئی کام اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھی کرنا ہے یا نہیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں اس دوران ڈپٹی کمشنر خضدار نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ا جتماعی قبروں سے اب تک 13لاشیں مل چکی ہیں جن کے نمونے حاصل کرکے ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے پنجاب فرانزک لیبارٹری لاہور ارسال کردیئے ہیں جس کے نتائج کے لئے تین سے چار ماہ کا عرصہ درکار ہے ۔ اس دوران سماجی تنظیم کے سربراہ نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ لاشیں 13 سے زائد تھیں ہمیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اگر نہ ہم حقائق بتلاتے ان لاشوں میں لاپتہ افراد بھی شامل ہیں ا س پر عدالت نے کہا کہ آپ اگر چاہیں تو عدالتی کمیشن سے رجوع کرسکتے ہیں ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی کمیشن نے پہلے ایک ماہ اور اب دو ماہ کا وقت تحقیقات کی تکمیل کیلئے مانگا ہے تو اس پر عدالت نے کہا کہ میڈیا اور دیگر کی رپورٹس میں تضاد ہے ہم اس معاملے میں کمیشن کی وجہ سے مداخلت نہیں کرتے اسی لئے اس کیس کی سماعت دو ہفتوں بعد کی جائے گی ۔

متعلقہ عنوان :