بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی تجویز ختم ہوچکی،خرم دستگیر ،بھارت کو اس وقت تک تجارتی شراکت دار کا رتبہ نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ کپڑے کی پاکستانی مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں نمایاں کمی کا وعدہ نہیں کرتا،برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

جمعرات 6 مارچ 2014 08:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مارچ۔2014ء)وفاقی وزارت تجارت خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ بھارت کو اس وقت تک تجارتی شراکت دار کا رتبہ نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ کپڑے کی پاکستانی مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں نمایاں کمی کا وعدہ نہیں کرتا۔برطانوی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی تجویز تو ختم ہو چکی۔

اب اس کے ساتھ غیر امتیازی تجارتی روابط والے ملک کا درجہ (این ڈی ایم اے) دیے جانے کی تجویز زیر غور ہے۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’اس کی منظوری بھی اْسی صورت دی جائے گی جب وہ (بھارت) پاکستانی مصنوعات، خاص طور پر کپڑے کی صنعت پر عائد ڈیوٹیز میں نمایاں کمی کرے۔خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ یہ درجہ دینے کے لیے وزارتی سطح پر تمام کام مکمل ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

اب یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش ہونا ہے جس کی رسمی منظوری ضروری ہے۔ جیسے ہی بھارت کی جانب سے ہمیں اپنے تحفظات پر مثبت جواب ملے گا کابینہ بھارت کے لیے اس خصوصی مراعاتی رتبے کی منظوری دے دے گی۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے اس وقت پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر 80 سے 120 فیصد تک ڈیوٹیز عائد کر رکھی ہیں جو ناقابل قبول ہیں۔اگر بھارت غیر امتیازی تجارتی روابط چاہتا ہے تو ان ڈیوٹیز کو صفر سے پانچ فیصد تک کی حد میں لانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بعض دیگر مصنوعات بھی ہیں جن میں پاکستان کو رعایت درکار ہے۔ ان میں کیمیائی اور طبی آلات بھی شامل ہیں۔خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت ترجیحی بنیادوں پر بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتی ہے اور اس کی راہ میں کسی سیاسی تنازعے کو حائل نہیں ہونے دیا جائے گا۔لیکن تجارت دو طرفہ معاملہ ہے۔

اگر ہمارے تاجروں، صنعتوں، کسانوں اور معیشت کو اس تجارت سے فائدہ نہ ہو تو یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کے ساتھ ایک جیسے تجارتی تعلقات چاہتا ہے اور اس بات سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھارت میں کس جماعت کی حکومت ہے۔لیکن اگر بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ اس حکومت کے دور میں نہ ہوا تو اس میں غیر ضروری تاخیر ہو گی کیونکہ انتخابات اور اس کے بعد نئی حکومت کے قیام اور اس کو اپنا ایجنڈا طے کرنے میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :