طاقت کا استعمال یا مذاکرات؟حکومت فیصلہ کرے ورنہ دیر ہوجائے گی،خورشیدشاہ، دہشت گردی کی کارروائیوں کی نشاندہی طالبان نے کرنی ہے تو پھر وزارت داخلہ طالبان کو انٹیلی ایجنسی اداروں میں شامل کردے، بھارت اور اسرائیل کا نام لیکر ہم اپنی جان نہیں چھڑا سکتے ،سید خورشید شاہ ، میں نہیں مانتا یہ کارروائی طالبان نے نہیں کی ،اگر وہ ملوث نہیں تو مذمت ضرور کرتے ،حملہ آوروں کی خود کو اڑانے کی باتیں درست نہیں وہ 40منٹ تک لوگوں کو کلمہ پڑھا کر فائرنگ کرتے رہے ،قائد حزب اختلاف کا قومی اسمبلی میں خطاب،پمز ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو

بدھ 5 مارچ 2014 08:03

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5مارچ۔ 2014ء)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید نے کہا ہے کہ اسلام آباد کا واقعہ سکیورٹی کی خامی ہے ۔اگر دہشت گردی کی کارروائیوں کی نشاندہی طالبان نے کرنی ہے تو پھر وزارت داخلہ طالبان کو انٹیلی ایجنسی اداروں میں شامل کردے جس سے انٹیلی جنس اداروں کی تعداد27 ہو جائے گی ۔حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا پھر طاقت کے استعمال کا فیصلہ کرنا ہوگا، تاخیر ملک کے لئے تباہ کن ہوگی ۔

حکومت پاک ایران منصوبے کو ختم کرنے کے لئے اچھے بہانے ڈھونڈ رہی ہے ۔منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سے آئی جی پولیس اور سیکرٹری داخلہ کو بلا لیا تو انہوں نے مختلف بیان دیا ۔

(جاری ہے)

سکیورٹی کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہوگا۔چار بندوں نے چالیس منٹ تک دہشت گردی کی کارروائی کی ایسی کوئی فورس نہیں پہنچی ۔

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ اسلام آباد کو دہشت گردی کا خطرہ ہے جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ اسلام آباد کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اسلام آباد کے واقعہ کے شہداء کے خون کا قوم کو جواب دے ۔حکومت کہ دہشت گردی کے خلاف کچھ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آخری وقت میں ایران سے گیس لیکر اچھا کیا ہے۔

معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان کی پوزیشن خراب ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو وقت پر فیصلہ کرنا ہوگا اگر تاخیر کی تو مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طاقت اور مذاکرات کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ دیر ہوجائے گی ۔بعد ازاں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا نام لیکر ہم اپنی جان نہیں چھڑا سکتے ، اگر اسلام آباد میں کارروائی طالبان نے نہیں کی تو وہ مذمت کرتے ، تمام سیاسی اختلافات کے باوجود دہشتگردی کے معاملے پر ہم اکٹھے ہیں ، شہریوں کو محفوظ بنانے کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پمز ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

خورشید شاہ نے کہا کہ اسلام آباد کی سکیورٹی پر حکومت کب توجہ دے گی ہم نہیں کہتے کہ یہ واقعہ حکومت کی ناکامی ہے ۔ سیاسی مخالفت کے باوجود ہمیں اکٹھا ہونا پڑے گا ۔ اسلام آباد واقعہ کے بعد یہ دنیا کی نظر میں آگیا ہے اسلام آباد کی سکیورٹی کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی میں نہیں مانتا کہ طالبان نے یہ حملہ نہیں کیا اگر طالبان نہ ہوتے تو وہ مذمت تو کرتے ۔

بھارت اور اسرائیل پر الزام لگا کر اپنی جان نہیں چھڑائی جاسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں استعفے دینے کا رواج بھی نہیں ہے اور نہ ہی ہم مطالبہ کرتے ہیں ۔ ضیاء کے دور میں دہشتگردوں کے مختلف ونگ قائم ہوئے کون ذمہ داری قبول کرتا ہے اور کون نہیں یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء نے مجھ سے کہا کہ اسلام آباد کے باہر محفوظ جگہ دی جائے تو میں نے کہا کہ آپ کو محفوظ بنا دینگے مگر 19کروڑ عوام کا کیا ہوگا سب کو محفوظ بنانا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کو اپنے آپ کو اڑا دینے کی باتیں درست نہیں وہ چالیس سے پچاس منٹ تک لوگوں کو کلمہ پڑھا کر فائرنگ کرتے رہے ہیں ۔ سید خورشید شاہ کا مزید کہنا تھا کہ اب تک پوری دنیا میں پاکستان کے دارلخلافے کے بارے میں تصور تھا کہ اسلام آباد ایک محفوظ جگہ ہے مگر اسلام آباد کچہری کے واقع کے بعد اب پوری دنیا سوچ رہی ہے کہ وہ اپنے سفارتخانوں کو اسلام آباد میں بند کردیں یا پھر کہیں اور دوسرے شہر میں منتقل کردیں جو کہ بہت بڑا المیہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ موقع تنقید کا نہیں اور نہ ہی تنقید کرنا چاہتے ہیں مگر اس وقت حکومت کو سنجیدگی سے ایکشن لینا ہوگا کیونکہ ہر وقت گزرتے دن میں حالات مزید سے مزید خراب ہوتے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت بہت خوش نصیب ہے کہ ان حالا ت میں اپوزیشن پوائنٹ سکورنگ کے بغیر ہی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے اور مزید ح الات اور ماحول کو خراب نہیں کررہی کیونکہ یہ تمام جماعتوں کا ملک ہے ۔