منچھر جھیل کے علاقے میں آئل کمپنیوں کے فلاحی کام نہ کرنے بارے ازخود نوٹس کیس کی سماعت،تیل وگیس کی تلاش کے جغرافیائی لحاظ سے پچاس بلاکس کی تفصیلات اور نقشے طلب ، عدالتی حکم کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کیخلاف توہین عدالت کارروائی ہوگی،جسٹس جواد ،ہر محکمے کو اپنا کا م خود کرنا چاہیے،کیا اب عدالت نیب اورنیپراکے کام کرے گی؟ریمارکس، آئل کمپنیاں پانچ کلومیٹر علاقے میں گیس کنکشن دینے کیلئے آدھے پیسے دیتی ہیں مگر حکومت اپنے حصے کے پیسے نہیں دے رہی،وکیل وزارت پٹرولیم کا موقف

جمعہ 28 فروری 2014 06:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28فروری۔2014ء)سپریم کورٹ نے منچھر جھیل کے علاقے میں آئل کمپنیوں کے فلاحی کام نہ کرنے بارے میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی پٹرولیم کنسیشنز سے جغرافیائی لحاظ سے پچاس بلاکس کی تفصیلات اور نقشے کی کاپیاں طلب کرلی ہیں اور جسٹس جوادایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالتی حکم پر عملدرآمدنہ کرنے والوں کے بارے میں بتائیں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی،ہر محکمے کو اپنا کا م خود کرنا چاہیے۔

کیا اب عدالت نیب ،نیپرا،ڈی جی پی سی کے کام خود کرے گی؟جبکہ وزارت پٹرولیم کے وکیل خواجہ فاروق نے کہا کہ آئل کمپنیاں پانچ کلومیٹر علاقے میں گیس کنکشن دینے کیلئے آدھے پیسے دیتی ہے مگر حکومت اپنے حصے کے پیسے نہیں دے رہی۔

(جاری ہے)

جمعرات کو یہاں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو وزارت پٹرولیم کے وکیل خواجہ فاروق نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کے لیے آئل کمپنیوں کو خط لکھے ہیں۔

ڈی جی پی سی نے عدالت کو بتایا کہ چھ ملین ڈالر کے فنڈز ملے ہیں صوبائی نمائندوں اور سیکرٹریوں کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں چاہتے ہیں پیسہ درست جگہ لگایا جائے مشاورت جاری ہے ہر علاقے کے لیے فنڈز کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ جغرافیائی پہلوں کا جائزہ لیتے ہوئے تیل کمپنیوں کے کام کی تقسیم کے لیے پچاس بلاکس بنائے ہیں تمام صوبائی ڈی سی اوز کو کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ کون سی آئل کمپنی کون سی سڑک استعمال کر رہی ہے۔

درخواست گزار روشن نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک کلومیٹر روڈ بھی نہیں بنا اور نہ ہی کوئی بنیادی مرکز صحت بنا ہے ہم نے ایک آئل کمپنی کو سکول کے لیے عمارت اور زمین دی انہوں نے چند دن سکول چلایا پھر بند کر دیا گیا۔گھوٹگی میں بتیس گاؤں ہیں ان میں سے صرف نو فیصد افراد کو روزگار ملا ہے وہ بھی صرف سیاسی بنیادوں پر ملا ہے۔ایک اور درخواست گزارکرنل ریٹائر اجمل خان نے چک بیلی میں پنڈوری گیس سے متعلق درخواست دی عدالت نے درخواست کو کیس کا حصہ بنا لیا۔

وزارت پٹرولیم کے وکیل خواجہ فاروق نے کہا کہ آئل کمپنیوں سے معاہدے کے وقت طے پایا کہ پانچ کلومیٹر کے علاقے میں گیس کنکشن دیے جائیں گے جس کے آدھے اخراجات کمپنی دے گی اب کمپنی تو پیسے دیتی ہے مگر حکومت اپنے حصے کے پیسے نہیں دے رہی۔جس پر جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ تیل کمپنیوں سے سہولیات لینا متعلقہ اضلاع کے لوگوں کا حق ہے ۔ ایسے کام کے پی کے ، بلوچستان ، سندھ ہر جگہ ہونے چاہئیں اس پر وزارت پٹرولیم کے وکیل نے کہا کہ عدالت صوبوں کے ایڈووکیٹس جنرل کو طلب کرے ۔

دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ گڈ گورننس قائم کرنا عدالت کا نہیں انتظامیہ کا کام ہے،جو بھی عدالتی حکم پر عمل نہیں کرتا اس کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوگی، رکاوٹیں ڈالنے والوں کے نام بتائے جائیں، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، ہر محکمے کو اپنا کا م خود کرنا چاہیے۔کیا اب عدالت نیب ،نیپرا،ڈی جی پی سی کے کام خود کرے گی؟ آلودگی کے باعث مقامی لوگ مر رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت چوبیس مارچ تک ملتوی کر دی۔