شمالی وزیرستان میں کارروائی کسی دن بھی ہو سکتی ہے‘امریکی اخبار،شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ’پلان‘ سے اعلیٰ امریکی حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے

جمعہ 28 فروری 2014 06:49

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28فروری۔2014ء)پاکستان کالعد م تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی اور گذشتہ چند مہینوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے والا ہے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پاکستانی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ’پلان‘ سے اعلیٰ امریکی حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے جو ایک عرصے سے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کا صفایا کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

امریکی اخبار نے پاکستانی حکام کے حوالے سے نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ ’اب یہ آپریشن کسی بھی دن شروع ہو سکتا ہے۔‘پاکستان نے اس آپریشن کی تیاری کے لیے امریکہ سے ڈرون حملوں میں عارضی بندش کے لیے درخواست کی تھی جن کی بندش کو اب تیسرا مہینہ ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

گذشتہ دو برس میں ڈرون حملوں میں اتنا بڑا وقفہ نہیں آیا۔پاکستان کے سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک ان دونوں ایک سیکورٹی وفد کے ہمراہ واشنگٹن کے دورے پر ہیں۔

امریکی خفیہ ادارے کے سربراہ جان برینن نے گذشتہ ہفتے خاموشی سے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور ان سے قبل امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لائڈ جے آسٹن سوم پاکستان کی فوجی قیادت سے راولپنڈی کے فوجی ہیڈکواٹر میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اخبار نے وزیر اعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے مشیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ کابینہ کی سطح پر فوجی آپریشن کے بارے میں مشاورت اس ہفتے مکمل کر لی جائے گی۔

وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے کہا تھا کہ مذاکرات کا سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا ہے اور قبائلی علاقوں میں حکومت پاکستان کی عمل داری کو بحال کرنا ہوگا۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ فوج پہلے ہی سے موجود ہے اور حکومت ان علاقوں کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے بھرپور کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانی حکام کے بقول ’انھیں بڑی تیاری کی ضرورت نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر ان علاقوں سے شہریوں کا انخلا شروع نہیں ہوا ہے لیکن ان علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں شہری ممکنہ فوجی کارروائی کے خطرے کے پیش نظر اپنے طور پر علاقے سے نکل رہے ہیں۔امریکی حکام نے پاکستان کی طرف سے حالیہ تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں کئی مرتبہ مایوس کیا ہے لیکن اس مرتبہ اس کا عزم حوصلہ افزا ہے۔

ایک امریکی اہل کار نے کہا کہ: ’ہم جب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تب یقین کریں گے۔‘پاکستانی اہل کاروں کو کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت یہ سب کچھ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے نہیں کر رہی۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے 30 فوجی اہل کاروں کو قتل کرنے اور کراچی میں ایک سرکاری بس پر حملے میں 19 پولیس والوں کی ہلاکت کے بعد ملک میں عوامی رائے عامہ طالبان کے خلاف ہو گئی ہے۔

ان واقعات کے بعد فوجی کارروائی کے لیے سیاسی فضا ہموار ہوئی ہے۔پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے فوجی آپریشن کی حمایت کی گئی ہے۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی یہ اشارے دیے ہیں کہ فوجی آپریشن ناگزیر ہوگیا ہے۔کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان افغانستان طالبان سے علیحدہ تنظیم ہے لیکن اس کی اتحادی ہے۔ ان دونوں تنظیموں کے بہت سے سرگرم کارکن اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے گروہ حقانی نیٹ ورک کے علاوہ القاعدہ کے عناصر بھی شمالی وزیرستان میں موجود ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان ملک کی حکومت کو ختم کرکے ملک میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔گذشتہ سال جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نواز شریف کی حکومت طالبان سے مذاکرات کی بات کرتی رہی ہے۔ لیکن حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ اس ڈرون حملے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور نواز حکومت نے امریکہ پر مذاکرات کے عمل کو سبوتاڑ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

دسمبر کے آخری میں پاکستان نے اوباما انتظامیہ سے درخواست کی کہ وہ ڈرون حملوں کو عارضی طور پر بند کر دیں تاکہ پاکستان اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر سکے جس کے بعد فوجی آپریشن کرنے کا جواز بھی مل جائے۔پاکستان کے اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اب تک باضابطہ طور پر پاکستان کی حکومت نے مذاکرات کو ناکام قرار نہیں دیا ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ سیاسی طور پر یہ انتہائی اہم ہے کہ حکومت مذاکرات کے سلسلے کو منطقی انجام تک پہنچائے۔

مذاکرات کے ایک دور کے بعد ہی 23 پاکستانی سپاہیوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آ گیا اور اس کے علاوہ کراچی اور راولپنڈی میں دہشت گردی کی وارداتوں نے مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے میں حکومت کے لیے مزید دشواریاں پیدا کر دیں۔ان واقعات کے بعد فوج نے قبائلی علاقوں میں فضائی حملے کر کے طالبان کو شدید نقصان پہنچایا اور ان کے متعدد ارکان ہلاک ہو چکے ہیں۔

2010 میں جنوبی وزیرستان میں کارروائی فضائی حملوں سے شروع کی گئی تھی جس کے بعد پیدل فوج نے علاقے میں صفائی کا کام شروع کیا تھا۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جغرافیائی حالات مختلف ہیں اور شمالی وزیرستان زیادہ پہاڑی علاقہ ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی میں تحریک طالبان پاکستان، حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ میں کوئی تمیز نہیں کیا جائے گی۔امریکی حکام کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سے اپنے خفیہ اداروں کے روابط کی وجہ سے اس علاقے میں کارروائی نہیں کرتا تاکہ اگر ضرورت پڑے تو اس گروپ کے ذریعے افغانستان میں اپنے مقاصد کو پورا کیا جا سکے۔پاکستان ہمشیہ ہی ان شکوک و شبہات کی تردید کرتا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :